اسلام آباد (آئی این پی) میڈیا میں بار بار شریف فیملی کے خلاف سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمان ملک کی جس انکوائری کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کا تو سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے 2 نومبر 1999 کو مشرف دور میں حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمان ملک کی انکوائری کی نوعیت دریافت کی تھی جس کے جواب میں ایف آئی اے نے اپنا موقف 28 جنوری 2000 کو بذریعہ خط وزارت داخلہ کو پیش کیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط میں رحمان ملک کی 1996-97 میں کی جانے والی انکوائری کو ذاتی نوعیت کی تحقیقات قرار دیا گیا تھا۔ خط کے متن میں کہا گیا کہ رحمان ملک نے ایف آئی اے کے طریقہ کار کے مطابق انکوائری نہیں کی۔ خط میں رحمان ملک کی انکوائری کو اس لیے ذاتی نوعیت کی قرار دیا گیا تھا کیونکہ رحمان ملک نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں باقاعدہ رجسٹرڈ انکوائری نہیں کی تھی، نہ تو اس کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا اور نہ ہی اس کا سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ موجود ہے بلکہ یہ اس وقت سیاسی مقاصد کے لئے شروع کی گئی۔ اسی وجہ سے مشرف دور میں اس پر کوئی کاروائی نہ ہو سکی۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمود سلیم محمود نے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا ۔پانامہ کیس میں عمران خان کے وکیل نے انکوائری میں منی لانڈرنگ ثابت ہونے کا حوالہ دیا تھا ۔