ہر ی، لال ، نیلی پیلی کھنکتی چوڑیاں جس کلائی میں سج جائیںاس کا حسن دوبالا کر دیتی ہیں ۔ کوئی تہوار ہو یا خوشی کا موقع ، چوڑیاں اور خواتین لازم و ملزوم ہیں۔ بچیاں ہوں یا لڑکیاں بغیر چوڑیوں کے عید منانے کا تصور نہیں کرسکتیں۔
پاکستان کا تاریخی شہر حیدرآبار جو پہلے اپنے روشن دانوں کی وجہ سے مشہور تھا اب چوڑی کی صنعت اس کی پہچان ہے ۔ چوڑی کی صنعت جنوبی ایشیا کی سب بڑی گھریلو صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں چوڑی کی صنعت میں پہلے نمبر پربھارتی شہر فیروز آباد ہےاور دوسرا درجہ ہمارے شہر حیدر آباد کو حاصل ہے۔
حیدر آباد میں اس صنعت کے فروغ کی بڑی وجہ فیروز آباد سے ہجرت کرکے آنے والے خاندان کا یہاں آ کر آباد ہونا ہے ۔ انھوں نے اپنے پرانے پیشے کو جاری رکھا اور اب ان خاندانوں کی کئی نسلیں اس کاروبار سے منسلک ہیں ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق حیدر آباد میں تقریباً پانچ لاکھ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں ۔ ان میں سے اسی فیصد خواتین ہمارے لئے اپنے گھرمیں بیٹھ کر چوڑیاں بنا رہی ہیں اور ان کے محنت کش ہاتھ سادہ سے شیشے کو ناز ک سی چوڑیوں میں بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
سستا زیور ہونے کی وجہ سے امیر ہو یا غریب ہر عورت کا پسندیدہ زیور ہےاور نت نئے انداز کی چوڑیاں ہر عورت کے روپ کو دلکشی عطا کرتی ہیں ۔ پچاس سے ستر روپے میں ہم رنگ چوڑیاں مل جاتی ہیں اور اگر اچھا سا سیٹ بنوانا ہے تو بات نو سو تک بھی جا سکتی ہے ۔ اب آپ پر ہے کتنا گوڈ ڈالتے ہیں ۔
رمضان سے پہلے سے ہی چوڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ خاندان میں شادیوں پر یا کسی تہوار پر آج کی خواتین کو سولہ سنگارکریں نہ کریں ہم رنگ چو ڑیاں بناؤ سنگھار کا لازمی حصہ سمجھی جاتیں ہیں ۔ پھر ہماری تہذیب کا حصہ رہا کہ شادی شدہ خواتین کی کلیاں ہر دم بھری رہیں اور اگر کسی بزرگ خاتون نے دیکھ لیا کہ کلیاں خالی ہیں تو ڈانٹ یقینی تھی ۔
میناکاری کا فن آپ کو چوڑیوں پر بھی مل جائے گا جوسادہ سی چوڑیوں میں جان ڈلادیتا ہے۔ تیرا سو ڈگری درجہ حرارت پر تیار ہونے والی ایک چوڑی انتالیس انداز سے بنائی جا سکتی ہے۔
ایک چوڑی کا سیٹ بیک وقت چھ سے آٹھ افراد مل کر تیار کرتے ہیں اور سادہ سے شیشے کو صفائی ، فرنس ، کٹنگ اور رنگائی کے مرحلوں سے گرکر ہمارے ہاتھوں تک پہنچتی ہے۔ ساتھ ہی سادہ سی چوڑی کو چمک اور نیت نئے روپ دینے کے لئے مختلف کیمیائی اجزا کا استعمال بھی عام ہے۔
اس لئے سارا سال ہی اس صنعت سے وا بستہ افراد فیض پاتے ہیں اور جب مانگ بڑھتی ہے تو بھارت اور ہانگ کانگ سے شیشہ منگا کر اس کمی کو پورا کیا جاتا ہے بلکہ بیرون ملک خا ص کر عرب ممالک ،برطانیہ اور دیگرممالک میں بھی ان کی مانگ رہتی ہے ۔