”مری لٹریری سرکل “ نے منیکرہ ضلع بھر کے شاعر ادیب اور اخبار نویس علی شاہ کے ساتھ گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں شام کا اہتمام کیا ہوا تھا، یوں تو علی شاہ کے ساتھ منائی جانے والی ساری شاموں، لاہور میں ہوں، بھکر یا مری میں،صدارت کیلئے انہوں نے مستقل طور پر مجھے اپنے حلقہ احباب میں رکھا ہوا ہے، لیکن اب کی بار ، جناب جمیل یوسف کی محبتوں نے بھی ہمیں مری جانے پر اکسایا تھا۔ جمیل یوسف مری کے علمی و ادبی اور صحافتی حلقوں کی جان ہیں۔ اور ملک بھر میں احترام کا حوالہ بھی، بلکہ یوں کہا جائے تو جمیل یوسف کے مقام کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی کہ وہ ممتاز مزاح نگار جنرل شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، ابن انشاء اور سیدضمیر جعفری کے دور کی نشانی ہیں، میرا ان سے گزشتہ تین عشروں سے عقیدت کا رشتہ ہے۔ بڑے کمال کے انسان ہیں۔ متحرک ،فعال،ہمدرد ،بامروت بہت سی کتابوں کے مصنف اور بے لوث صوفی۔
انہی کا شعر ہے
دل میں حرص آئی نہیں لب پر سوال آیا نہیں
مجھ کو دنیا سے نمٹنے کا کمال آیا نہیں
مری میں پاکستان کے سارے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ شہر ملک کے جھلسے ہوئے ماحول کو طمانیت کا پروسا دینے میں شہرت رکھتا ہے۔ البتہ ٹھنڈے پانیوں ،سرگوشیاں کرتی ہواؤں اور میٹھے چشموں کے اس شہر سے واپسی پر سیاحوں کو خاصی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، لاہور سے پشاور تک اور اسلام آباد کے قرب وجوار کے لوگ تو اکثر اپنی سواری پر مری جاتے ہیں۔
لیکن، کراچی ،اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کو ٹرانسپورٹروں کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرناپڑتا ہے، یوں تو راولپنڈی سے مری تک ویگن کا پینتیس روپے فی سواری کرایہ مقرر ہے، مگر اتوار والے دن سے ڈھائی سو روپے تک بڑھا دیا جاتا ہے، اگر مسافر منہ مانگا کرایہ دینے سے انکار کر دیں تو درجنوں بسیں اور ویگنیں ،اڈے میں میں موجود ہونے کے باوجود انکار کر دیا جاتا ہے کہ ”گاڑی کوئی نہیں ہے“ یا یہ کہ راولپنڈی نہیں جانا وغیرہ وغیرہ ، علی شاہ کے ساتھ منائی جانے والی شام کو بہت سی فیملیوں کو وہاں ،بسوں اور ویگنوں کے اڈے پر بچوں کے ساتھ بے یارو مددگار دیکھا، ٹریفک پولیس اور مقامی انتظامیہ کا کوئی نمائندہ وہاں موجود نہیں تھا، ڈی ایس پی کا پتہ کروایا تو وہ کسی دعوت پر مصروف بتایا گیا، جبکہ چیف ٹریفک آفیسر مری ایس ایس پی کے بارے میں لوگوں نے بتایا کہ ٹرانسپورٹروں سے انکی ”دوستی“ ہے اس لئے ٹرانسپورٹر منہ زور ہو گئے ہیں!! ان چھوٹی چھوٹی انتظامی کمزوریوں نے مری کے حسن کو گہنایا ہوا ہے، مٹہ ، سوات، اور کالام تو پہلے ہی سیاحت کے قابل نہیں رہے، کاغان اور ناران کے علاوہ ٹھنڈا پانی بھی دھیرے دھیرے ویران ہوتے جا رہے ہیں اور اگر ملکہ کوہسار مری بھی انتظامیہ کی عدم توجہی کا شکار ہوتی چلی گئی تو وزارت سیاحت و ثقافت کے دفاتر اس طرح بند کرنے پڑ جائیں گے جس طرح ماضی قریب میں مقتدرہ قومی زبان کے دفاتر کو ملک بھر میں بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دیئے گئے تھے، ”مری لٹریری سرکل“ جہاں وہ ادب پروری میں کوشاں ہے اسے معاشرے کے ”بے ادبوں“ پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے کیونکہ قلمکار معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال سے کوئی قلمکار خود کو بری الذمہ نہیں کہہ سکتا ۔ اس خطہ جنت بے نظیر مری میں ایسے ماحول کو رواج دیا جائے۔ کہ ہر کوئی واپسی پر جمیل یوسف کا یہ شعر گنگناتا آئے گا کہ
اس اجنبی کی رفاقت میں ایسی خوشبو تھی
ہم اپنے سارے سفر کی تکان بھول گئے