پرویز مشرف ہمیں شمشیر وسناں کے حوالے کرکے خود طاؤس و رباب سے لطف اندوز ہونے دوردیس جاچکے ہیں۔ ستمبر2001ء میں ان کی طرف سے امریکی کروسیڈ کی غیر مشروط حمایت کے چند ہی روز بعد اوائل اکتوبر2001ء میں، جہاں دیدہ اور امریکہ گزیدہ شخص، انجینئر گل بدین حکمت یار نے کہا تھا ”امریکہ افغانستان پر قبضہ کرکے اسے بیس کیمپ بناکر وسط ایشیا میں گھسنا چاہتا ہے تاکہ وہ پاکستان ، چین اور روس تک اپنا حلقہ اثر بڑھا سکے۔ امریکہ سے پاکستان کا تعاون تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریکیں یہ سوچنے پر مجبور ہوسکتی ہیں کہ اگر پاکستان نے اپنے افغان دوستوں سے آنکھیں پھیر لی ہیں تو ہمارا بھی یہی حشر ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے ممکنہ تعاون کے عوض امریکہ اسے کچھ نہیں دے گا۔ وہ صرف پاکستان کو سبز باغ دکھاتا رہے گا۔ پاکستان اس جھانسے میں نہ رہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر میں اس کی مدد کرے گا۔ اس سلسلے میں اس کا وزن بھارت کے حق ہی میں رہے گا۔ مجھے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ پاکستان اتنے شدید دباؤ میں کیوں آرہا ہے“۔
حکمت یار کی حکمت بیدار لفظ بہ لفظ درست ثابت ہوئی۔ اقتدار کی اندھی ہوس میں مبتلا ڈکٹیٹر کی دانش بیمار وقت کی کسوٹی پر کھوٹی نکلی۔ اب ایک دشت رائیگاں ہے اور منہ زور ہواؤں کے طمانچے کھاتا پاکستان۔ بے سمت راہوں کے اندھے سفر میں ایک اہم موڑ فروری 2007ء میں آیا تھا جب عام انتخابات میں عوام نے دو ٹوک انداز میں مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے، دو بڑی قومی جماعتوں کو یہ مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں اور پاکستان کو مشرف کے آسیب سے نجات دلاکر پھر سے آبرومند راستوں پہ ڈالیں، یہ موقع ضائع کردیا گیا۔ عوام اندازہ ہی نہ لگا سکے کہ امریکہ نے بڑی ہنر مندی سے این آر او کا اہتمام کرکے مشرف کو سونپی گئی فدویانہ ذمہ داریاں، پیپلزپارٹی کے سپرد کردی ہیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ مردود آمریت اور مقبول جمہوریت کو ایک جوئے میں جکڑ کر امریکی اہداف کے کولہو میں جوت دیا جائے۔ پاکستان آجانے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پر نئے حقائق آشکارا ہونے لگے۔ ان کے بیانات سے انحراف کی بو آنے لگی۔ انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ جناب آصف زرداری نے طے شدہ پلان کو جوں کا توں قبول کرلیا۔ اپنی صدارت کی راہ ہموار کرتے ہوئے امریکہ اور بعض دوسری قوتوں سے معاملات طے کرتے وقت، کچھ مزید رعایتیں دے دی گئیں۔ امریکہ پوری طرح اندر گھس آیا اور چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ ہماری حاکمیت اعلیٰ جو پہلے ہی بے بس و لاچار ہوچکی تھی، متاع کوچہ و بازار بن کر رہ گئی۔
چارہ کار کیا ہے؟ بنیادی امر یہ کہ حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو صورتحال کی نزاکت کا احساس دلایا جائے۔ یہ کام میڈیا، رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے اداروں، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپس کا ہے کہ وہ متعلقہ حلقوں کو پاکستان کی موجودہ بے چارگی کا احساس دلائیں۔ پس پردہ کی مفاہمتوں اور خفیہ ڈیلوں کا پردہ چاک کریں۔ ملک اس طرح نہیں چلا کرتے کہ کوئی فرد اپنے ذاتی مفاد کیلئے پوری قوم کو گروی رکھ دے اور کسی کو کچھ پتہ ہی نہ چلے کہ اسے کس بھاؤ بیچا گیا ہے۔ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ اس کی اس عالمی حیثیت اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا ادراک لازم ہے۔ عاجزانہ فدویت کی طرح جارحانہ بڑھکیں بھی مسئلے کا حل نہیں۔ ضرورت اس عزم (Political will) کی ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کار رکھے جائیں لیکن کسی کے ہاتھ اپنی آزادی و خودمختاری کے تقدس تک نہ پہنچنے دیئے جائیں۔ صدر زرداری کو باور کرانا ہوگا کہ مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل ان کے حق میں بھی نہیں اور ان پالیسیوں سے پاکستان کے مسائل اور مصائب بھی بڑھ رہے ہیں۔ مشرف مختار کل تھا۔ امریکہ نے اس کی مطلق العنانیت کو اس کی سب سے بڑی کمزوری بنا لیا۔ وہ ڈکٹیٹر کی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ کے حکم جاری کرتا تھا اور ساتھ ہی یاددلاتا تھا کہ ”تمہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے نہ تم کسی کے سامنے جوابدہ ہو“۔ صدر زرداری پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مشرف سے کہیں زیادہ طاقتور بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ سترہویں ترمیم کے بدستور قائم رہنے کا ایک سبب یہی ہے اور یقینا امریکہ بھی نہیں چاہتا کہ صدر کے مقابلے میں پارلیمینٹ زیادہ قوی ہوجائے۔ ذرائع ابلاغ اور معاشرے کی اجتماعی قوت، صدر زرداری کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ عالمی گماشتوں کے سامنے اپنی کمزوری اور پارلیمینٹ کی مضبوطی کا تاثر اجاگر کریں جس دن ایسا ہوگیا، اس دن آدھی جنگ جیت لی جائے گی۔ لیکن یہ اسی دن ہوگا جس دن میڈیا ”ٹام اینڈ جیری“ شوز جیسے مضحکہ خیز تماشوں سے اوپر اٹھ کر ایک بڑے قوی کردار کے لئے کمربستہ ہوجائے گا۔
ہم عملاًحالت جنگ میں ہیں۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر ملک کی سینئر قیادت پر مشتمل ایک کونسل بھی تشکیل دی جا سکتی ہے جو پاکستان کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لائق بنائے۔ نان نفقہ اور احتیاج کی موجودہ کیفیت سے نکلنے کے لئے ایمرجنسی اقتصادی پلان بنایا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کچھ عرصے کے لئے اپنی تنخواہوں اور الاؤنسز سے دستکش ہوسکتے ہیں۔ حکمرانوں اور بڑے گھروں کے اخراجات میں 80فیصد تک تخفیف ہوسکتی ہے۔ بیرونی مٹر گشتوں پر پابندی لگ سکتی ہے۔ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کا سوال ہے۔
ایک سوالیہ نشان یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ برس سے ملک کا مقدر بن جانے والی اس افتاد میں فوج کہاں کھڑی ہے؟ کیا وہ سول حکمرانوں کی فدویت کی پشت پر ہے؟ کیا وہ اپنے سابقہ چیف کی متعین کردہ راہوں پر چلنے ہی کو تقاضائے مصلحت خیال کرتی ہے؟ کیا وہ بھی کسی پس پردہ مفاہمت کی زنجیروں میں بندھی ہے؟ جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی عسکری حکمت کار میں عوام کی حمایت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ اسی عوامی تائید کو سوات آپریشن کی کامیابی کی کلید قرار دیتے ہیں۔ انہیں یقینا اس بات کا علم ہے کہ امریکہ کے خلاف عوامی نفرت کا عالم کیا ہے اور اس کے کروسیڈ کے بارے میں لوگوں کی رائے کیا ہے؟ مطالعہ کے شائق اور فکر و تدبر کرنے والے سپاہی کے طور پر انہیں اس امر کا بھی بخوبی اندازہ ہوگا کہ حد سے بڑھے ہوئے امریکی نفوذ نے پاکستان کی سلامتی کو کیسے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ فوجی لیڈر شپ کو بھی رک کر سنجیدگی سے نفع و ضرر کاگوشوارہ بنانا ہوگا۔ فوجی اور سیاسی قیادت کی کامل یکسوئی اور آٹھ سال سے مسلط بے مہر موسموں کو بدلنے کے عزم راسخ کے بغیر کچھ نہ ہو پائے گا۔
حکومت، فوج، سیاسی جماعتوں، سوشل سوسائٹی، میڈیا، سب کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑی جست لگانا ہوگی۔ حکمرانی کی لذتیں ہی حاصل حیات ٹھہریں اور نان نفقہ کے لئے چند ڈالر ہی کمال آرزو قرار پائے تو پاکستان کی سلامتی داؤ پر لگی رہے گی۔ ہمیں زیاں کاری اور سود فراموشی کے آشوب سے نکلنا ہوگا۔پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے میں کچھ وقت لگے گا لیکن مشرف کے پاکستان کی باگیں قبل از مشرف پاکستان کی طرف موڑنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اس میں تاخیر کی شاید تلافی نہ ہوسکے۔