قدیم عرب کہا کرتے تھے ’’ہمارافلاں شہسوار ایک ہزار پر بھاری ہے‘‘ عمران خان کو ایک بابر اعوان کی شکل میں دراصل ایک ہزار شہسوار جوائن کر چکے جس پر عمران خان بجا طور پر مبارکباد کا مستحق ہے۔ خوشگوار حیرت اس بات پر ہوئی کہ بابر اعوان کے خوب صورت فرزندگان پہلے سے ہی تحریک انصاف جوائن کر چکے تھے۔ مبارک ہیں وہ بیٹے جن کے نقوش قدم پر باپ کو چلنا پڑے اور باپ بھی بابر اعوان جیسا عاشق رسولؐ۔ بابر اعوان اقتدار میں تھا جب ’’بیلی پور‘‘ ملنے آیا اور وجہ کیا تھی؟ میری اکلوتی نعتتیرے ہوتے جنم لیا ہوتاکوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتاسانس لیتا تو اور میں جی اٹھتاکاش مکہ کی میں فضا ہوتاہجرتوں میں پڑائو ہوتا میںاور تو کچھ دیر کو رکا ہوتابیچ طائف بوقت سنگ زنیتیرے لب پہ سجی دعا ہوتاکسی غزوہ میں زخمی ہو کر میںتیرے قدموں میں جاگرا ہوتاکاش احد میں شریک ہوسکتااور باقی نہ پھر بچا ہوتاتیری پاکیزہ زندگی کا میںکوئی گمنام واقعہ ہوتامیں کوئی جنگجو عرب ہوتاجو ترے سامنے جھکا ہوتاپیڑ ہوتا کھجور کا میں کوئیجس کا پھل تو نے کھا لیا ہوتابچہ ہوتا غریب بیوہ کاسر تری گود میں چھپا ہوتابت ہی ہوتا میں خانہ کعبہ میںجو ترے ہاتھ سے فنا ہوتامجھ کو خالق بناتا غار حسنؔاور مرا نام بھی حرا ہوتامیری اس نعت نے دنیابھر میں پھیلے اردو قارئین کو میرے کس قدر قریب کردیا۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تب سے اب تک مجھے کبھی پرفیوم خریدنا نہیں پڑا۔ بانٹتے رہنے کے باوجود خوشبوئوں کی بھرمار رہتی ہے۔ اس نعت کی بات کرتے ہوئے کوئی آدمی نارمل نہیں دیکھا لیکن اس کا ذکر کرتے ہوئے جوحال اور حالت بابر اعوان کی دیکھی وہ دن جائے آج کا آئے میں نے ہمیشہ اس شخص کو محبت سے یاد کیا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کس پائے کا سیاستدان اورقانون دان ہے یا تاریخ بالخصوص اسلامی تاریخ پر اس کی دسترس کا کیا عالم ہے، مجھے تو صرف وہ بابر اعوان یاد ہے جو حضورؐ کے ذکر پر پگھلتاہوا نظر آیا تھا کہ مجھ جیسے دنیا داروں اور گنہگاروں کیلئے یہی حتمی کسوٹی ہے۔ میری دعا ہے کہ قافلہ نما یہ فرد واحد غوغائے سگاں کے شور میں، منہ زور دریا کی طرح اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے اور منزل کیا ہے؟ اک ایسا پاکستان جس کی رعایا کو چند بوند پٹرول کیلئے آگ کے دریا میں نہ جلنا جھلسنا پڑے۔ ظلم کی انتہا دیکھو کہ ایسے سانحات کے ذمہ دار حکمران بھی یہ فرماتے ہیں کہ وہ ’’ذمہ داران‘‘ کا تعین کریں گے۔ ظالمو! اصل ذمہ دار تو بھوک ننگ اور محرومی ہے جس کے ذمہ دار مقتدر طبقات ہیں اور وہ کون ہیں؟ہر نئے شخص کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر حریف، حاسد اور کچھ سادہ لوح شور مچادیتے ہیں کہ پرانے چہروں کےساتھ نیا پاکستان کیسے بنے گا؟ خاطر جمع رکھیں ایسے ہی بنے گا کہ لوہے کو صرف لوہا ہی کاٹ سکتا ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا عالم فاضل پرہیز گار بغیر دولت، طاقت، الیکشن ٹیکنالوجی کے ان عادی جمہوری چوروں اور کن ٹٹوں کے مقابلہ پرکیا کر لے گا؟ آئیڈئیلزم خوبصورت چیز ہے لیکن زمینی حقائق کہیں زیادہ بے رحم اورسفاک۔ تاریخ اسلام کا لیجنڈری امیر البحر خیرالدین بار بروسہ بحری قذاق تھا سو تیل اور تیل کی دھار دیکھو کیونکہ آخری تجزیہ میں میٹر صرف پارٹی یا حکومت کا سربراہ کرتا ہے اور اگر وہ دیانتدار، محنتی، فوکسڈ اور وژنری ہونے کے ساتھ ساتھ مشاورت پر بھی یقین رکھتا ہے تو ستے خیراں سمجھو ورنہ جہاں پیپلز پارٹیوں اور ن لیگیوں سے بار بار دھوکے اور زخم کھائے ...... ایک زخم پی ٹی آئی سے بھی سہی کہ ان کا ٹٹا بھجا آپشن تو پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے گا۔ پی ٹی آئی بھی انہی کی طرح گند گھولے، جھک مارے، ملکی وسائل کو تاخت و تاراج کرے تو زرداریوں، شریفوں، فضلوں، اسفند یار وںکی غلامیوں میں واپس لوٹ جائیں گے لیکن اپنی رہن رکھی مقروض نسلوں کی خاطر خود کو ایک موقع تو دو کہ ان سوراخوں سے تو بار بار بری طرح ڈسے جا چکے۔ امیدوار نہ چاند اور مریخ سے امپورٹ کیے جاسکتے ہیں نہ اہل مغرب سے ادھار لیے جاسکتے ہیں۔ GIVEN CONDITIONSمیں یہ گزر بسر کرنا ہوگی۔کبھی میرا تعلق بھی اسی ’’سکول آف تھاٹ‘‘ کے ساتھ تھا کہ بغیر پروں والے فرشتے ڈھونڈے جائیں لیکن پھر بتدریج قائل ہونا پڑا کہ اس کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں سو پی ٹی آئی کو یہ کمک مبارک ہو۔ بالخصوص بابراعوان کی آمد۔
.