• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)
سب سے پہلے تو یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ’’محبت کے چالیس اصول‘‘ عورت اور مرد کی محبت یا کسی ایک رشتے تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ آفاقی اصول ہیں جو انسانیت کا طرۂ امتیاز ہیں۔ محبت صرف ایک جذبہ نہیں بلکہ ضابطۂ حیات ہے جس کی کئی شقیں اور تشریحات ہیں۔ رومی کے مطابق دنیا کششِ ثقل کی بجائے کششِ عشق کے قانون پر قائم ہے۔ ہر اعلیٰ ادنیٰ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور تمام تر مادی اور روحانی ترقی اسی کشش پر قائم ہے۔ یہ دنیا ظاہر اور باطن کا مرکب ہے۔ اصل حقیقت باطن میں پوشیدہ ہے۔ افلاطون نظریۂ امثال میں ظاہر کو سائے اور عکس سے تعبیر کرتا ہے۔ رومی کی فکر میں بھی سائے کے پیچھے دوڑنے والے کو کم عقل کہا گیا ہے۔ کائنات کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہے اس لئے عشق وہ نگاہ عطا کرتا ہے جو ظاہری نقابوں کا پردہ چاک کر کے باطن کا دیدار کرتی ہے۔
محبت کے چالیس اصولوں کے حوالے سے کئی سوالات نگاہِ حیرت میں موجود ہیں تاہم ایک بات تو طے ہے کہ یہ تمام اصول شمس تبریز کی رومی سے گفتگو کا حاصل یا اقوال ہیں جنہیں ناول میں مختلف سیاق و سباق کے ساتھ فٹ کیا گیا ہے۔ مثنوی شمس تبریز کا پنجابی ترجمہ پڑھا، ان اصولوں کو حرف بہ حرف ڈھونڈنا مشکل ہے لیکن ان کی روح یعنی مفہوم ضرور عیاں ہو جاتا ہے۔ ایلف شفق کا کمال ہے کہ اس نے فکرِ شمس تبریز کا تجزیہ کرتے ہوئے زندگی کرنے کے گُر وضع کئے ہیں۔ لفظی، عقلی اور روحانی سطح پر کی جانے والی تشریح قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ رومی نے بھی عقل کے چار مدارج کی بات کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے ایلف نے چوتھے درجے پر فائز ہو کر قرآن، احادیث، رومی اور شمس تبریز کا مطالعہ کیا ہے اسی لئے اس پر وہ حقیقت عیاں ہوئی جو حیوانی سطح پر مفقود ہوتی ہے۔ اس کے مطابق قرآن کو دور سے دیکھنا، اُسکے ظاہر تک محدود رہنا اور اس کے معنی کے دریا کے اندر اتر کر اُسے محسوس کرنا الگ الگ معاملہ ہے۔
سورہ النساء کی تشریح دیکھئے (ظاہری معنی) ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ اسلئے اللہ نے بعض کو بعض سے افضل تخلیق کیا ہے اور اس لئے بھی کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں اور جن عورتوں کے بارے میں یقین ہو کہ سرکشی اورنافرمانی کرنے لگی ہیں تو پہلے ان کو زبانی سمجھاؤ ،اگر وہ نہ سمجھیں تو ان کے ساتھ سونا ترک کر دو اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو، پھر اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو ان کو تکلیف دینے کا کوئی بہانہ مت تلاش کرو ۔بیشک اللہ بہت بڑا اور عظیم ہے۔‘‘
(باطنی معنی ایلف شفق کے مطابق) ’’مرد عورتوں کا سہارا ہیں کیونکہ اللہ نے کچھ انسانوں کو دوسروں سے زیادہ وسائل سے نوازا ہے اور کیونکہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں (عورتوں کی کفالت کیلئے) سو نیک عورتیں اللہ کی اطاعت کرتی ہیں اور پوشیدہ چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں جیسے اللہ نے حکم دیا ہے۔ وہ عورتیں جن سے تمہیں نافرمانی کا اندیشہ ہو ، ان کو بات کر کے قائل کرو۔ پھر اُن کو اُن کے بستر پر تنہا چھوڑ دو۔ (اُنھیں تکلیف دئیے بغیر) اور اُن کے بستر میں جاؤ (جب ان کی رضا اور مرضی ہو) اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو انھیں تکلیف دینے کا کوئی بہانہ تلاش نہ کرو بے شک اللہ سب سے بڑا اور عظیم تر ہے۔‘‘
محبت کے چالیس اصول دراصل ’’Making of Rumi‘‘ ہے۔ رومی کی عالم سے عاشق بننے کی داستان ہے۔ظاہریت سے باطنیت کی طرف سفر کی تفصیلات ہیں۔ شمس تبریز کی قربت نے رومی کے من کو مالا مال کیا تو جدائی ایسی شاعری کی تخلیق کا باعث بنی جس نے اسے لافانی شہرت بخشی۔ شمس کی آمد کے بعد رومی کی زندگی کا منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ رومی عالم اور مقرر تھا جبکہ شمس تبریز سراپا عشق۔ علم اور عشق کی قربت نے دنیا کو زندگی کا ایک نیا رُخ دکھایا۔رومی کا علم احساس اور محبت سے شرابور ہوا تو اس کے لفظ دھڑکنے لگے، دل جھوم اُٹھا اور کائنات رقص کا دائرہ بن گئی۔ وجود میکانکی حد بندیوں کا حصار توڑ کر لامحدود سے مل کر لہر بن گیا۔
یہ کتاب ایک معجزے کی طرح میرے دل پر اُتری اور مجھے مالا مال کر گئی ۔ کئی سالوں سے چھائی مُردنی اور خالی پن جاتا رہا۔ کتاب پڑھنا عبادت کرنے کے مترادف لگا۔جسم و جاں ہاتھ باندھے حقیقت مطلق کے سامنے جا پہنچے۔ کرم کی بارش تصورات کی تمام دھول مٹی بہا کر لے گئی۔ وہ خواب اور تعبیریں جو وقت کی بھاگ دوڑ نے مجھ سے چھین لئے تھے ۔ ایلف شفق کی تحریر سے مجھے واپس عطا ہوئے۔
کتاب پڑھتے ہوئے میں نے کئی صدیاں پیچھے سفر کرتے ہوئے ان گلی کوچوں میں خود کو موجود پایا جہاں شمس تبریز دانش اور حق گوئی کی سربلندی کے لئے ظاہریت پرستوں سے محوِ مکالمہ تھا۔ میں نے نہ صرف ہر لمحے کوحضوری کی حالت میں شرابور ہوتے دیکھا بلکہ ظاہریت اور حقیقت کا ملاپ ہوتے بھی محسوس کیا۔
روح نے اس شمس تبریز سے ملاقات کی جس کا تن من محبت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا، جس کا عشق کامل تھا، رب کی محبت جس کے وجود میں یوں سما چکی تھی کہ غیر اللہ کا تصور ہی ناممکن ہو گیا۔ اس کے مقابل ظاہریت پرستوں کی سازشیں اور فتوے تحریر ہوتے دیکھے۔ نفی ٔ ذات اور برتری کے خاتمے کے لئے رومی کو سخت حکم صادر کرتے اور فنا فی المُرشد میں ڈوبے مرید کا سرِ تسلیم خم ہوتے دیکھا۔ شمس تبریز کی رفاقت میں رومی کی سرشاری اور جدائی میں بین اور آہیں سنیں۔دورانِ مطالعہ میں ایک عجیب تجربے سے گزرتی رہی۔ بدن اور روح کے درمیان حائل زمانی فاصلے کم ہونا شروع ہوگئے ۔مسلسل تطہیر کا عمل جاری رہا، لفظوں سے برآمد ہونے والی روشنی میرے وجود کو مانجھتی رہی۔ میل صاف ہوئی تو دھند چھٹنے لگی ۔ایسی کتابیں ہی سچی دوستی اور رہنمائی کا فریضہ ادا کرتی ہیں جو آپ کو حواس اور مادیت سے بے نیاز کر کے وقت کے پروں پر بیٹھ کر سفر کرنا سکھاتی ہیں ۔روح پر ضرب لگتی ہے تو دل میں براجمان وہم و گمان کے بت ٹوٹنے لگتے ہیں۔ میں نے دل کی روشنی میں اس کتاب کا مطالعہ کیا اور خواب کے عالم میں چیزیں مجھ پر واضح ہو کر میری روح میں جذب ہوتی رہیں۔اس وقت میں حرکت نہیں کر سکتی تھی مگر اب ان تمام وارداتوں کو اپنے عمل میں لا سکتی ہوں۔ ہم سب اپنی روح کی آواز سن کر اجتماعی خیر کے اس عمل میں شریک ہو سکتے ہیں جو صوفیوں اور ولیوں کا شیوا رہا ہے۔
اصل معاملہ لفظوں میں پوشیدہ دور اور قریب کے معنی کا ہے جن کی بنیاد پر محبت اور نفرت کے اصول اور ضابطے تحریر ہوتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھئے ۔ہو سکتا ہے اس کی مدد سے آپ خود کو تلاش کر کے ایک نئے سفر کا آغاز کر سکیں۔ ہما انور نے اس کا خوبصورت ترجمہ کر کے نیکی اور خیر کو پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ ایلف شفق کے اس ناول کا مقصد محبت کرنا اور اسے پھیلانا ہے۔ محبت آفاقی قدر ہے جو باطن کے تاریک غاروں کو منور کر کے ایک متوازن اور راست زندگی بسر کرنے کا گُر سکھلاتی ہے۔ محبت کے جواب میں محبت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہر حال میں محبت کرنا عظیم تر ہے۔ محبت کے چالیس اصولوں کا حاصل ایک ہے کہ محبت کے بغیر زندگی بے مقصد اور لایعنی ہے۔ روحانی، مادی، الوہی، دینوی، مشرقی اور مغربی محبت کی جستجو کے فرق میں وقت ضائع کرنے کی بجائے محبت کرنا افضل ہے۔ کیونکہ محبت آب ہے اور محب آتش، جب آتش اور آب کا وصل ہو جائے تو کائنات نئے سانچوں میں ڈھلنے لگتی ہے۔

 

.

تازہ ترین