راولپنڈی کے مصروف علاقے میں پیر کی صبح ایک خودکش دھماکہ میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 30افراد جاں بحق اور 50 سے زائد شدید زخمی ہوئے ۔ دھماکے کی وجہ سے ارد گرد کی عمارات کوبھی شدید نقصان پہنچا اوربہت سی عمارات کے دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے جبکہ قریب سے کھڑی ہوئی کئی گاڑیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ خودکش دھماکہ اس وقت کیاگیا جب بنک کے باہر تنخواہ لینے والے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جائے حادثہ کے قریب ایک بڑاسکول بھی ہے جسے فوری طرپر بند کرکے والدین کو اطلاع دی گئی کہ وہ اپنے بچوں کو سکول سے لے جائیں۔ ہلاک ہونے والوں میں چند خواتین بھی شامل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس سانحہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کی فوری طور پر تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور موٹرسائیکل پر وہاں پہنچااور خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ خودکش حملہ آور کا سر جائے وقوعہ سے مل گیا ہے جبکہ بہت سے مرنے والوں کے جسمانی اعضا جائے حادثہ پر بکھرے پڑے تھے۔ سکیورٹی اور امدادی ایجنسیاں حادثے کی اطلاع ملتے ہی جائے حادثہ پر پہنچ گئیں اور ریسکیو 1122 نے زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا جہاں بہت سے زخمیوں کی حالت خطرناک بتائی جاتی ہے۔ جس جگہ یہ حادثہ ہوا اس کے قریب راولپنڈی کے دو اعلیٰ ہوٹل بھی واقع ہیں جہاں ملک کی اہم شخصیات ٹھہرتی رہتی ہیں۔گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران یہ ملک کا دوسرا بڑا اندوہناک سانحہ ہے جس میں وطن دشمن دہشت گردوں نے ایک اہم عوامی مقام کو نشانہ بنایا ہے جس میں معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایاگیا۔ بدھ 28اکتوبر کو پشاور کے خواتین کے مینا بازار میں ریموٹ کنٹرول سے بم دھماکے کئے گئے جن میں 112کے قریب خواتین اور بچے شہید ہوئے اور درجنوں عمارتیں اور بڑی تعداد میں گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ اس دھماکے میں ایک مسجد بھی شہید ہوگئی جس میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے والے متعدد بچے بھی جاں بحق ہوگئے۔ اس اندوہناک حادثے میں تباہ ہونے والی عمارات کا ملبہ ابھی تک صاف کیا جارہا ہے۔ پشاورہی نہیں پورا ملک اس پر سوگوار تھا کہ آج چھ روز بعد ان بدبختوں اور وطن دشمنوں نے ایک بار پھر ایسی عوامی جگہ کو نشانہ بنایا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے لئے جمع تھے۔ یہ راولپنڈی کا اہم مصروف علاقہ ہے جہاں بڑے ہوٹلوں کے علاوہ کاروباری دفاتر اور متعدد کئی منزلہ عمارات بھی موجود ہیں۔ عینی شاہدین نے الزام عائد کی ہے کہ ایسے موقع پر جب بنک سے لوگ بڑی تعداد میں تنخواہیں وصول کر رہے تھے اس مقام پر سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے خودکش حملہ آور ایک موٹرسائیکل پر دھماکہ خیز مواد لے کر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ بات شہریوں کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ جب پشاور دھماکہ کے بعد ملک بھرمیں ہائی سکیورٹی الرٹ کردی گئی تھی خصوصاً جی ایچ کیو کے سانحہ کے بعد راولپنڈی میں خصوصی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور جگہ جگہ رینجرز اور پولیس کے علاوہ فوج کے بھی ناکے قائم کردیئے گے تھے ان حالات میں ایک خودکش حملہ آور کا اس طرح ایک مصروف علاقے میں پہنچ کر دھماکہ کرنا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اگرچہ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے کہ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن انتہائی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور کوالالمپور میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیرستان آپریشن کے اہداف سردیوں سے پہلے حاصل کرلیں گے۔ وزیرستا ن میں عسکریت پسند فرار ہورہے ہیں ان کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی ہے اوریہی وجہ ہے کہ دہشت گرد ایک زخمی درندے کی طرح ملک کے دوسرے حصوں میں عام جگہوں پردھماکے اور خودکش حملے کرکے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں تاہم اس سے عوام کے حوصلے کسی صورت پست نہیں کئے جاسکتے اور عوام متحد اورمتفق ہو کر ان کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے تاہم اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں اہم تنصیبات اور اہم مقامات پرسکیورٹی کے بھرپور اور ایسے مربوط انتظامات کئے جائیں جن سے گزر کر کسی بھی دہشت گرد اور خودکش حملہ آور کو ٹارگٹ کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکے۔گزشتہ روزوزیرداخلہ رحمن ملک نے یہ کہا کہ حکومت نے ایسے جدید آلات حاصل کرلئے ہیں جو چند کلومیٹر کے فاصلے تک دھماکہ خیز مواد کی نشاندہی کرسکیں گے۔ ضرورت ہے کہ ان آلات و فوری طور پر ملک کے بڑے شہروں کے اہم مقامات پر نصب کرنے کا اہتمام کیاجائے اورعوام کے اشتراک و تعاون سے علاقے اور محلے کی سطح پر حفاظتی کمیٹیاں قائم کی جائیں جو ایسے وطن دشمن عناصر کی کڑی نگرانی کریں۔ یہ فوری طور پرکرنے کا کام ہے کیونکہ اس بارے میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ ایسے وطن دشمن افراد کو بیرونی ہاتھوں کی مالی تائید و حمایت حاصل ہے جو ملک میں فتنہ و فساد برپا کرکے اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ انہی کالموں میں ہم نے پہلے بھی یہ گزارش کی تھی کہ ملک میں قومی یکجہتی ، اتحاد اور تعاون کی فضا قائم کرنے کے لئے سیاسی اور مذہبی قوتوں کے درمیان بھی وسیع ترمشاورت کی جائے یہ وقت آپس میں محاذآرائی کا کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔
بدعنوانی اور نا انصافی کو روکنا ضروری ہے
این آر ا و کی منظوری کے لئے قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں شرکت اور بحث کیلئے اپوزیشن نے مکمل تیاریاں کرلی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ این آراو پاس ہوا تو پارلیمینٹ ربڑا سٹمپ بن جائے گی۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں 4آرڈیننس منظوری کیلئے پیش کئے جائیں گے جبکہ وزارت پارلیمانی امورکے مطابق این آر اوایجنڈے میں شامل نہیں ۔ بل کا ڈرافٹ دو تین دن تک تیار ہو گا۔ اس کے بعد ہی اسے منظوری کیلئے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض ذرائع کے مطابق آج پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے ایجنڈے میں این آر اوشامل ہے جس پر پارٹی کی قیادت اپنا لائحہ عمل تیارکرے گی۔ ن لیگ کے حوالے سے بعض دوسری سیاسی جماعتوں کا بھی کہنا ہے کہ اگر اس بل کو پارلیمینٹ سے منظور کرایا گیا تو یہ دن تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا اور کرپشن کرنے والوں کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔ ایم کیو ایم کے بابر غوری کے مطابق کوئی بھی ذی شعور این آر اوکی حمایت نہیں کرے گا۔ تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے این آر اوکے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے میاں شہبازشریف کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ خود پی پی پی کے بے شمار لوگ بھی این آر اواور لوگر بل کے مخالف ہیں۔ ہم منظوری کی حمایت میں این آر اوکے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کریں گے۔ دریں اثنا صدر آصف علی زرداری نے پی پی پی کی اتحادی پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بھی آج طلب کرلیاہے اور تمام ارکان کو اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ دریں اثنا وفاقی وزیر پارلیمانی امور بابر اعوان کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمینٹ نے این آر اوکی منظوری دے دی تو سپریم کورٹ اسے رد نہیں کرسکے گی البتہ عدالت ِ عظمیٰ پارلیمینٹ کے فیصلے پر نظرثانی کرسکتی ہے تاہم این آر او کے متعلق پارلیمینٹ کا ہر فیصلہ قابل قبول ہوگا۔ ان کا کہنا تھاکہ صدر زرداری کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہوسکا۔این آر او کے حوالے سے حکومتی موقف کے جواب میں مختلف سیاسی و مذہی جماعتوں، ماہرین قانون، بعض کاروباری اور تجارتی حلقوں کی طرف سے اور عوامی سطح پر جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے بالخصوص سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اکثریت کے علاوہ خود حکمرا ن جماعت کے بعض اراکین کا منفی ردعمل حکومت کے لئے دعوت ِ فکر و عمل ہے۔ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے حضرات بھی اس سے بے خبر نہیں کہ اگر غیراخلاقی اور غیرقانونی بنیادوں پر محض اقتدار کے نشے میں ایسے فیصلے کرکے انہیں عوام پر مسلط کرنے اور قانونی شکل دینے کے لئے خفی یا جلی طاقتوں کے ایما پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو عوام انہیں پذیرائی بخشنے اور قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے البتہ حکومت کے خلاف اندرونی سطح پر ایک ایسا محاذ کھل جاتا ہے جو سیاسی انتشار و افتراق پیدا کرکے قومی و ملکی سلامتی کے لئے سنگین خطرات کو جنم دیتا ہے ۔ ماضی کے ایک آمر کے غیرقانونی، غیر آئینی اور آمریت کے بطن سے جنم دینے والے فیصلوں کا حشر پوری قوم اور حکمرانوں کے سامنے ہیں۔ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور جمہوریت کے عدم استحکام اور اسے نظرانداز کرکے کئے جانے والے فیصلوں سے بہر طور دامن بچایا جائے ۔ایک ناپسندیدہ اور قومی مفادات سے متصادم روایت کاخاتمہ حکمرانوں کے لئے ایک نیک شگون ثابت ہوگا۔