• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر پرویز مشرف سے صدر فضل الٰہی چوہدری تک,,,,کٹہرا … خالد مسعود خان

سوال یہ ہے کہ کیا زرداری صاحب کی غلطیوں اور ہٹ دھرمیوں ، ان کے آٹھ دس پیاروں کی لوٹ مار ، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے تمام رشتہ داروں اور دوستوں کی حسب استطاعت دیہاڑی لگانے اور چند درجن وزیروں کی نااہلی اور کرپشن کے حسین امتزاج کی سزا پوری قوم کو دی جاسکتی ہے؟ اس آسان سے سوال کا جواب یقینا ”نہیں“ ہے۔ دانشوروں کا یہ حال ہے کہ وہ ہر آمر کے دور حکومت میں یہ کہتے ہیں کہ دنیا کی بدترین جمہوریت بہرحال دنیا کی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے لیکن جب ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو وہ اس قسم کے سارے ”اقوال زریں“ بھول جاتے ہیں اور جمہوریت کو غیرمستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
یہ بات درست کہ صدر زرداری اس وقت وعدہ خلافیوں، غلطیوں ، نااہل مشیروں کے باعث ناپسندیدگی کے کوہ ہمالیہ پر بیٹھے ہوئے ہیں مگر وہ بہرحال ایک منتخب اور آئینی صدر ہیں اور صرف ا سی ایک خوبی کے باعث وہ دنیا کے کسی بھی بہترین آمر سے زیادہ بہتر ہیں۔ اس لئے ان کو کسی بھی غیرآئینی طریقے سے ہٹانا یا اس کی کوشش کرنا ایک ایسا غیرجمہوری ، غیرآئینی اور ناپسندیدہ فعل ہے جس کی تائید اور حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جاسکتی۔
میں موجودہ حکومت کی نااہلی ، کرپشن اور نالائقیوں پر مسلسل لکھتا رہا ہوں اور بشرط زندگی لکھتا رہوں گا کہ یہ میرا حق بھی ہے اور فرض بھی ہے لیکن اس تمام تر آگاہی کے باوجود میں شرح صدر سے یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہرحال جمہوریت ہی کی برکتیں ہیں کہ حکومت این آر او کو اسمبلی میں لانے کے اعلان کے بعد خود اس سے بھاگ گئی ہے اور یہ جمہوریت ہی کی فتح ہے کہ حکومت اپنی تمام تر کوششوں اور خواہش کے باوجود اسمبلی سے وہ کچھ منوانے میں ناکام رہی ہے جس کے لئے وہ بے تاب تھی۔ ابھی محض چند سال پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی نے اسی عمارت میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ سترہویں ترمیم منظور کرکے نام نہاد جمہوریت کا پول کھول دیا تھا۔
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت کا ہر وہ حصہ دار جو کسی نہ کسی طرح سے کسی اختیار کا حامل ہے۔ اس بہتی گنگا میں حسب توفیق ہاتھ دھو رہا ہے لیکن ان چند درجن بے ایمانوں کی غلطیوں کی سزا اٹھارہ کروڑ عوام کو تو نہیں دی جاسکتی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اس ملک میں کلاشنکوف کا لائسنس گلی کوچوں میں پچاس ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک فروخت ہو رہا ہے اور محض پچاس ہزار روپے تک کی درویشانہ کرپشن کے ڈانڈے اسلام آباد کی سب سے اونچی رہائش گاہ کے مکین کی طرف جا کر ملتے ہیں۔ یہ بات کاغذوں پر موجود ہے کہ ممنوعہ بور کے لائسنسوں کے اجرا کا اختیار پہلے صرف وزیراعظم کو حاصل تھا۔پھر یہ اختیار وزیر مملکت برائے داخلہ کو مل گیا۔
ممنوعہ بور کے لائسنسوں کے اجرا پر پابندی لگ گئی اور ایک دو ماہ کے بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ تاہم لائسنس جاری کرنے کا اختیار دوبارہ وزیراعظم کو مل گیا اور اب ملک میں ممنوعہ بور کا لائسنس دوبارہ گلی کوچوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ وزیراعظم کے عزیزو اقربا ہر لیول کی خریدوفروخت میں مصروف ہیں۔ حتیٰ کہ مستورات بھی اس کار خیر میں پورے زور و شور سے مصروف ہیں لیکن اس کاحل کسی غیرآئینی طریقہ کار میں موجود نہیں ہے کیونکہ غیرآئینی طریقے سے بندوق کے زور پر آنے والے یا چور دروازے سے آکر اس غیرجمہوری سیٹ اپ کا حصہ بننے والے بھی یہی کچھ کرنے کے لئے سارے پاپڑ بیلتے ہیں۔ اب آہستہ آہستہ جنرل پرویز مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک اور مونس الٰہی سے لے کر ہمیش خان تک کے قصے سامنے آ رہے ہیں۔ شوکت عزیز کی تکنیکی لوٹ مار کا دائرہ کار ہوشربا بھی ہے اور ”تھڑے“ کے اوپر بیٹھ کر باعث بدنامی قسم کی کرپشن کرنے والوں کے لئے مشعل راہ بھی ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سوال وہیں پر موجود ہے کہ کیا اس ملک میں بتیس سالہ آمریت کا دور کرپشن فری تھا؟ کیا یہ غیرجمہوری اور ملک کے اندرونی اور بیرونی استحکام میں کامیاب تھا؟ کیا ہم نے اس غیرآئینی دور حکومت میں اخلاقی اور معاشرتی ترقی کی ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ مشرقی پاکستان ، سیاچین اور اپنے تین دریا تین مختلف آمروں کے دور میں ہارے گئے۔ ہر آمر نے پاکستان کا جغرافیائی رقبہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ صرف ایک جمہوری حکمران نے گوادر پاکستان میں شامل کرکے اس کے رقبے میں اضافہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے لئے بے شمار منطقی جواز پیدا کئے کہ وہ عوام میں پذیرائی حاصل کرکے بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کو مضبوط بناسکیں۔
موجودہ حکومت (اگر وہ واقعتاً حکومت ہے بھی سہی) بدعنوانیوں اور خرابیوں کے آخری درجے پر فائز ہے اور صدر زرداری اپنے نالائق مشیروں کے طفیل جتنی پھرتیوں سے ملک کے جمہوری نظام کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اس کی مثال دنیا بھر میں اور کہیں نہیں ملتی مگر یہ معاملہ صدر زرداری کا ذاتی معاملہ نہیں ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طریقہ سے چلتا کردیاجائے اور معاملہ ٹھیک ہو جائے۔ اس معاملے کو غیرآئینی اور غیرجمہوری طریقے سے ختم کرنے کی ہر کوشش مزید خرابیوں کا پیش خیمہ ہوگی اور اس سلسلے میں عدالتوں پر عموماً اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر خصوصاً ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے تو بہتر ہے کہ ہر ادارے کے وزن برداشت کرنے کی بہرحال ایک حد ہوتی ہے۔صدر زرداری صاحب کرامت نہیں محض گدی نشین ہیں اور گدی نشین بھی ایسے جیسے مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں جن کے جد امجد شیخ شاہ محمود کو حضرت بہاء الدین زکریا کی گدی ان کی آخری حقیقی گدی نشین راجی بی بی کے لاولد ہونے کے باعث ملی تھی۔
صدر زرداری کو بھی ذوالفقار علی بھٹو کی یہ گدی ان کی دختر کی رخصتی کے باعث ملی ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ پیپلزپارٹی کے صاحب کرامت ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے آئین کے تحت سترہویں ترمیم اور اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کا اعلان کریں اور اپنے مرحوم سسر اور سیاست کے وارث اعلیٰ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پسند کے مطابق ویسے ہی صدر بنیں جیسے کہ فضل الٰہی چوہدری تھے۔صدر پرویز مشرف جیسے بااختیار صدر سے دوبارہ فضل الٰہی چوہدری بننا خاصا مشکل کام ہے مگر جمہوریت کی بقا کے لئے صدر زرداری کو بھی کچھ نہ کچھ قربانی تو دینی ہوگی۔ اگر وہ اپنے ان اختیارات سے دستبردار نہیں ہوتے تو پھر وہ بھی کسی متوقع خرابی میں صرف برابر کے نہیں بلکہ سب سے بڑے حصے دار ہوں گے کہ ساری خرابیوں کی جڑ ان کے یہی غیرجمہوری اختیارات ہیں۔ تین سو ایکڑ والا معاملہ بھی دراصل انہی اختیارات کا نتیجہ ہے۔ جب اختیارات کم ہو جائیں گے تو ان کا مثبت اثر ان کی لامحدود خواہشات کو کسی حد تک محدود کردے گا۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ یہ جمہوری نظام صدر فضل الٰہی چوہدری بشکل صدر آصف زرداری ایوان صدر میں موجود رہیں۔
تازہ ترین