ایک ماہر سیاستدان کا قول ہے کہ پاکستانی سیاست کبڈی کی طرح ہے البتہ ایک فرق یہ ہے کہ کبڈی میں کھلاڑی لنگوٹ پہن کر جاتا ہے اور لنگوٹ میں ہی واپس آتا ہے لیکن سیاسی کبڈی میں سیاستدان بسااوقات لنگوٹ کے بغیر ہی میدان سے واپس آ جاتا ہے۔ان دنوں بھی کبڈی کبڈی ہو رہی ہے، خدا ہر ایک کی آبرو اپنے حفظ و امان میں رکھے(آمین)…عید قربان کی آمد آمد ہے اور صدر محترم سے بھی قربانی کے تقاضے عروج پر ہیں، یہ کھیل اتنا سہل بھی نہیں لگتا کہ خواہشیں و خواب حسبِ منشا ء شرمندہ تعبیر ہو سکیں۔اگرچہ قصرِ صدارت کے جاہ و جلال اور اس کے کشادہ دریچوں سے سرِ شام آتی ہوش رُبا ہواؤں کے پیغام کے باوصف حاسدوں کے پیغام نے صاحبِ نشیں کا مزہ کرکرا کر دیا ہے اور بقول شاعر وہ اضطرابی کیفیت سے دوچار ہیں
زاہد کی ضد ہے کالی گھٹاؤں کو بھول جانا
کالی گھٹائیں کہتی ہیں توبا نہ کیجیے
تماشے کے منتظر دیدہ و بینا حضرات کا نہ جانے کیا قیاس ہے کہ اس سیاسی کبڈی کا انجام کیا ہو گا اور اس انجام سے عوام کا انجام بخیر ہو گا یا پھر کوئی تروتازہ جانے والے کے گناہ بخشوانے کے لیے پروانہ نزول لیے کھڑا ہو گا؟ کہتے ہیں ایک کفن چور حالت نزاع میں بیٹے کو وصیت کرتے ہیں کہ برخوردار میں نے لوگوں کو کافی ستایاہے کوئی ایسا کام کرنا جس سے میرے گناہ دھل سکیں۔ فرمانبردار کا جواب ہوتا ہے بابا فکر مت کیجیو، اب اس کا بیٹا کفن چوری کرنے کے ساتھ مُردے کی ناک بھی کاٹنے لگتا ہے۔ یہ ماجرا دیکھ کر لوگ کہتے ہیں ”خدا بخشے اس کے والد کو وہ تو صرف کفن چوری کیا کرتا تھا، یہ تو مُردے کی بے حرمتی بھی کرتا ہے“اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ان دنوں لوگ یہ کہتے سُنے جاتے ہیں کہ پرویزی آمریت میں تو آٹا اور چینی مل جاتی تھی، جمہوریت کے علمبرداروں نے تو ہمارے ووٹ کے ساتھ یہ اشیائے ضرورت بھی نگل لیے ہیں۔
ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ جب کسی قوم کو ہمسایہ قوم کے حملے کا خطرہ نہیں رہتا تو اُس قوم کے اختیار مند عیش و طرب کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگتے ہیں، ہر شخص کے دل میں خود غرضی جڑ پکڑنے لگتی ہے، اس کا مطمع نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ جومال و دولت اس کے ہاتھ آئے، اُس سے نہایت سرعت کے ساتھ ذاتی فائدہ اٹھائے لہٰذا قوم کے وہ تمام اخلاقی محاسن فنا ہو جاتے ہیں جو اس کی عظمت کا حقیقی سبب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ روم اور ایران جیسی مستحکم حکومتوں کی حامل سلطنتیں بھی جب عالم مدہوشی سے باہر نہ آئیں تو بے خطرہ ہو کر بھی وہ دشمن کے خطرے کا شکار ہوئیں کہ برابرہ نے روم اور عربوں نے ایران کو تاراج کیا۔ بالفاظ دیگر جب کسی قوم پر دشمن سایہ فگن ہو تو وہ چوکنا رہنے کی خاطر مے ومینا،حرص و لالچ سے دور رہتی ہے کہ یہ وہ سامانِ غفلت ہیں جو دشمن سے بیگانہ کر دیتی ہیں…اب ہماری لااُبالی ملاحظہ فرمائیں، پاکستان نہ صرف چاروں سمت خطروں میں ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی آسیب زد ہ ہے اور بھارت تو حقِ ہمسائیگی کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت آمادہ نظر آتا ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان بے چارے ماہرین کو عمرانیات کے ساتھ غیب کا بھی کچھ علم ہوتا تو وہ کبھی مذکورہ نظریہ پیش کرنے کی جسارت نہ فرماتے!! کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا کہ مستقبل میں پاکستانی قوم کے اختیار مندوں و خردمندوں کو دشمن نہیں دشمنوں کا خطرہ لاحق ہو گا لیکن اس کے بااختیار طبقات اس قدر بااعتماد و لاپرواہ ہوں گے کہ تمام تر خطرات کے باوجود زرپرستی و جاہ طلبی ان کا خاصہ، عیش و سرور جن کی زندگی کا لازمہ اور سیاسی کبڈی جن کا مشغلہ ہو گا!!اقوام عالم کو پاکستانی سیاسی اشرافیہ پر رشک آتا ہو گا کہ یہ کتنے دلیر، بے خوف اور رجائیت پسند ہیں کہ ملک پر منڈلاتے مہیب سیاہ بادلوں کے باوجود یہ اپنے شوق چھوڑنے پر تیار نہیں!!
بلاشبہ قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور زندہ قومیں ہر نوع کے امتحان سے سُرخ رو ہو کر بھی نکل جاتی ہیں لیکن ہمارے لیے وقت کا نوحہ یہ ہے کہ چار سوں پھیلی بے چینی، ناامیدی، ہیجان اور وسوسوں سے عوام کو نجات دلانے کی بجائے سیاسی اشرافیہ، جمہوری قدروں کے جمود اور معاشرے کے مزید انحطاط کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ ہماری سیاسی رویوں میں کارفرما یہ عامل ہے کہ اکثر سیاست دانوں کی پرورش آمریت کے گملوں میں ہوئی ہے اور جو اس شرف سے محروم ہیں ان میں سے بھی اکثر اس گملے کا پھول بننے کے لیے ہر لمحے خود کو سجائے رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ ایک طرف من وسلویٰ کی بندر بانٹ جاری ہے اور دوسری طرف اقتدار کے بندر بانٹ کے لیے فارمولے پیش نظر ہیں۔ایسے عالم میں عوام دم بخود ہیں کہ ان کا کیا بنے گا…ہر سیاستدان کا فرمان ہے کہ عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ فلاں کی گدی کا تحفظ کرے یا فلاں کو کرسی سے اتار پھینک دیں، عوام تو یہ فرض نبھاتے نبھاتے سرزمین بے آب و گیاہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن سیاستدان ہیں کہ اپنے عالیشان محلات، جن سے امارت و بادشاہت ٹپکتی ہے، سے باہر نکل کر ان کی حالت زار دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اب جو عناصر، دستیاب اجزائے ترکیبی سے کوئی انقلاب نکالنے کے درپے ہیں، کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ وہ جانے والوں کے گناہ بخشوانے کی روایت جلیلہ سے خود کو سبکدوش کر پائیں گے کہ پاکستان کی 6 عشروں پر محیط زندگی میں حکمران ایک دوسرے کے گناہ ہی تو بخشواتے رہے ہیں!!یہ سچ ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا جاتا مگر یہ بھی جھوٹ نہیں کہ ایوبی آمریت براستہ ضیاء آمریت تا پرویزی آمریت، شاہراہ دستور پر موجود کانٹے سیاستدان ہی آمروں کی خاطر اپنی پلکوں سے چُنتے رہے ہیں۔ مولویوں سمیت جو سیاستدان 8 ویں ترمیم یا پھر آج17 ویں ترمیم، پر سب سے زیادہ سیخ پا ہیں۔ یہی تو تھے جن کے ووٹ نے صدر کے رتبے کو تقدیس اور مطلق العنان حیثیت عطا کی یعنی آمریت کے فیصلے اگر جی ایچ کیو میں ہوئے تو ان کے دوام کا وسیلہ پارلیمنٹ ہی بنی ہے ہمارے ہاں نام تو جمہوریت کا لیا جاتا ہے لیکن اپنا مفاد درپیش ہو تو جمہور کا گلہ گھوٹنے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا جاتا اور یہی نکتہ عوام کو غور کی دعوت دیتا ہے کہ جو سیاسی بازیگر کرسی کے لیے حریف کے لنگوٹ کو تار تار کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے وہ عوام کش اقدامات پر ایک کیوں ہو جاتے ہیں!!آٹا و چاول بیرون ملک اسمگل کر کے اندرون ملک ان کی مہنگے داموں فروخت پر یہ گٹھ جوڑ کیوں کر لیتے ہیں!!حکومت، اپوزیشن میں موجود چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں نہیں کرتی اور اپوزیشن، حکومت میں شامل شوگر مافیا کی پگڑی سڑکوں پر اچھالنے سے گریزاں کیوں ہے!!کاش عوام کبھی ایک ایشو اور کبھی دوسرے ایشو کے پیچھے لگ کر گناہ بے لذت میں مبتلا ہونے کی بجائے کبھی اپنی بھی فکر کر لیں۔ اسرار الحق مجاز نے کہا تھا
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے