اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین)سپریم کورٹ میں پاناما عملدر آمد کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی رپورٹ پر تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے وکلاء اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے دلائل مکمل کرلئے ہیں، جبکہ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگزکے پابند نہیں، دیکھیں گے کہ جو شواہد سامنے لائے گئے ہیں۔
قانون کے مطابق ان کا جائزہ لیا جائیگا، ضرورت پڑنے پرجلد10بھی کھول کردیکھیں گے، دوران سماعت دوران سماعت جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کیلئے جے آئی ٹی کی سفارشات پر عملدرآمد لازم نہیں، بیانات کوضابطہ فوجداری کے تحت دیکھاجائیگا، درخواست گزاروںکوغیر قانونی پراپرٹی کا تعلق نواز شریف سے ثابت کرنا ہوگا، درخواست گزار بتائیں، سفارشات پرکیوں عمل کریں، دیکھنا ہوگا دستاویزات قانون کے مطابق پاکستان منتقل ہوا، قانونی حد مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے، شہباز شریف کا بیان تضاد کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، ہر چیز صاف و شفاف ہونی چاہیے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بادی النظر میں صادق اور امین نہ رہنے کی بات کہی توپھر کیس ہی ختم ہوگیا۔ وزیراعظم کے فاضل وکیل کے دلائل جاری تھےکہ عدالتی وقت ختم ہو جانے کی بناء پر عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے وکلاء کو بھی آج پیش ہونے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے پیر کے روز جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالےسے سماعت کی تو درخواست گزار عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ پاناما کیس کے فیصلہ میںجسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا تھاجبکہ جسٹس گلزار احمدنے ان سے اتفاق کیا تھا تاہم 3 فاضل ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی تھیں جسکے بعدجے آئی ٹی اور یہ عملدرآمد بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی کا اختلافی نوٹ ججز کی اقلیت کا تھا، جبکہ جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ اکثریت کا تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیشرفت رپورٹ عملدرآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی ہے جبکہ 10 جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ جمع کرائی ہے، تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی، گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہیںکرسکا، گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی تھی، جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کے بیان حلفی کو غلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا ہے، اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد بھی نوٹ کیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔ انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں، ان کا بیان تضاد کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائے گا اور ہم قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کرینگے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں؟ اور جے آئی ٹی سفارشات پر کس حد تک عمل کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے دلائل دیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت کو وزیر اعظم نواز شریف کو عوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دیتے ہوئے معاملہ ٹرائل کیلئےبھجوانا چاہئے،کیونکہ بادی النظر میں وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے،جس پر جسٹس اعجاز الاالحسن نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر کا مطلب ہے کہ ابھی صادق اور امین ہونے کے معاملہ پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر بادی النظر کہہ دیا تو پھر تو کیس ہی ختم ہو جائے گا،جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل کے بعدعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی Super six اور فاضل ججز کو قوم کی خدمت کا اجر ملے گا،انشا اللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہو گا، انہوںنے کہا کہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کے باہر کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کی تھی، انکی صاحبزادی مریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ثابت ہوگئی ہیں، ایک بچے کو سعودی عرب، دوسرے کو لندن میں بے نامی رکھا گیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد اب کیس میں کیا رہ گیا ہے؟بہت سے لوگوں نے جے آئی ٹی کو جن قرار دیا ہے،جے آئی ٹی کو عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے اختیارات بھی دیئے ہیں، 60 دن کی جس قلیل مدت میں جے آئی ٹی نے اپنا کام مکمل کیا ہے اتنے وقت میں تو عام طور پر تھانے سے عدالت تک چالان بھی نہیں آتا، انہوں نے کہا کہ جس عمر میں لوگوں کے شناختی کارڈ نہیں بنتے،اس عمر میں شریف خاندان کے بچے800 کروڑروپے کما لیتے ہیں، کیونکہ یہ بچے نواز شریف کے ہیں، حمید ڈینٹر کے نہیں،انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں تو مزید آف شور کمپنیاں بھی نکل آئی ہیں اور قوم کی ناک کٹ گئی ہے کہ ہمارا وزیر اعظم دوسرے ملک میں نوکری بھی کرتا ہے، جے آئی ٹی نے ثابت کردیا ہے کہ ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں،انہوں نے کہا کہ ہر کیس کے پیچھے ایک فیس ہوتا ہے، اس کیس کے پیچھے نواز شریف کافیس ہے،، نواز شریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا،اب معاملہ ملکی عزت کا ہے، جو ڈھائی گھنٹے بعد اپنے خالو کو پہچانے،اس پر کیا بھروسہ کیا جا سکتاہے۔
سرکاری ٹی وی کا خاکروب 18 ہزار اور وزیر اعظم 5 ہزار روپے ٹیکس دیتا تھا اور تو اور 1500 ریال لینے والے کیپٹن صفدر کے بھی 12 مربے نکل آئے ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ شیخ سعید اور سیف الرحمان نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں، شیخ سعید، نواز شریف کے ساتھ ہر عرب ملک کی میٹنگ میں ہوتے تھے، ان ملاقاتوں میں پاکستانی سفیروں کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی،صدر نیشنل بینک نے تسلیم کیا ہے کہ وہ جعلسازی کرتے پکڑے گئے تھے،جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ نیشنل بینک کے موجودہ صدر کی بات کر رہے ہیں؟ شیخ رشید نے کہا کہ شریف خاندان کو بدعنوانی پرمثالی سزا دی جائے، اور اس مقصد کیلئے ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جائے،اگر کیس نیب کو بھیجا گیا تو وہاں بھی جے آئی ٹی بنائی جائے،دلائل کے دوران انہوں نے ججز کو جناب اسپیکرکہہ دیا اور پھر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اسمبلی میں بولنے ہی نہیں دیا جاتا،شیخ رشید کے بعد وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے جے آئی ٹی سے متعلق دو درخواستیں دائر کی ہیں، ایک درخواست جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے والیم 10 کی فراہمی سے متعلق ہے جبکہ دوسری درخواست میں جے آئی ٹی پر اعتراضات درج ہیں۔
انہوںنے کہا کہ دستاویزات اکھٹی کرنے کیلئے جے آئی ٹی نے قانون کی خلاف ورزی اور اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے،اس لئے ان کی دستاویزات کو بطور ثبوت تسلیم نہیں کیا جاسکتا،انہوںنے عدالت سے جے آئی ٹی رپورٹ اور اپنے موکل کے خلاف دائر کی گئی درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تو جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل کو ایشوز تک محدود رکھیں تو آسانی ہوگی، ہم چاہتے ہیں کہ عدالت اور قوم کا وقت ضائع نہ ہو،جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قانون اور حقائق کے خلاف ہے، جس کی بنیاد پر ان کے موکل کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی ٹرائل نہیں کر رہی تھی، الزامات اس نوعیت کے تھے کہ عدالت کو تحقیقات کروانا پڑیں اور گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ اپنے الفاظ کا چناؤ احتیاط سے کریں،فاضل وکیل کے دلائل جاری تھےکہ عدالتی وقت ختم ہو جانے کی بناء پرعدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے وکلاء کو بھی آج پیش ہونے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔