اسلام آباد (محمد صالح ظافر) پیر کو عدالت عظمیٰ میں غیر معمولی ہجوم کے باوجود ماحول میں سنجیدگی بدرجہ اتم موجود رہی۔
سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی احاطہ عدالت میں آمد اہم واقعہ کے طورپر دیکھی گئی جو بوجوہ ایسے جھمیلوں سے دورر ہتےہیں حکمران پاکستان مسلم لیگ نون کے چیئرمین راجہ محمد ظفرالحق جو پارلیمان کے ایوان بالا میں قائد ایوان بھی ہیں اپنی پارٹی کے لئے تقویت کا باعث تھے انہیں قانون دان حلقوں میں قابل لحاظ قدرومنزلت حاصل ہے حزب اختلاف کی صفوں سے ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی حاضری قابل ذکر تھی جبکہ جماعت اسلامی کےامیر سراج الحق باقاعدگی سے عدالت عظمیٰ کا طواف کرنے والوں میں شامل ہیں وہ اس معاملے کے مدعی بھی ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اعلان کے باوجود کارروائی دیکھنے کے لئے ہمت جمع نہیں کرسکے۔ دن بھر کی کارروائی میں فریقین بہت محتاط رہے تاہم حزب اختلاف کے چہروں پر مایوسی کی جھلک آتی اور جاتی رہی۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے عدالتی کارروائی میں بھرپور دلچسپی لینا شروع کردی ہے برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے نمائندے شہزاد ملک کی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق جے آئی ٹی کی طرف سے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے جانےکے بعد پہلی سماعت شروع ہوئی تو کمرہ عدالت سماعت شروع ہونے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی لوگوں سے اتنا بھر چکا تھا کہ وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ ان افراد میں درخواست گزاروں کے وکلا کی تعداد کم جبکہ غیر متعلقہ افراد، خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی تعداد زیادہ تھی۔
شیخ رشید پہلے درخواست گزار تھے جو سب سے پہلے کمرہ عدالت میں پہنچے دوسرے درخواست گزار جماعت اسلای کے امیرسراج الحق بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے جبکہ عمران خان سپریم کورٹ نہیں پہنچے کمرہ عدالت میں موجود لوگوں کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب میاں نواز شریف کے سابق دست راست اور موجودہ بدترین سیاسی مخالفین میں سے ایک چوہدری شجاعت حسین بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لئے کمرہ عدالت میں پہنچ گئے چار افراد چوہدری شجاعت حسین کو سہارا دیکرکمرہ عدالت میں لیکر آئے چوہدری شجاعت سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کچھ ہفتوں کے لئے وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائزر ہے تھے۔
دو گھنٹے کمرہ عدالت میں گزارنے کے بعد چوہدری شجاعت حسین انہی چار افراد کی مدد سےواپس روانہ ہوگئےاس کے علاوہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے نمائندے بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ یہ تینوں پارٹیاں پاناما لیکس میں درخواست گزار نہیں ہیں اور ان جماعتوں کے ارکان پہلی مرتبہ ان درخواستوں کی سماعت دیکھنے کے لئے سپریم کورٹ آئے ان جماعتوں کے نمائندوں کی سپریم کورٹ میں موجودگی پر حکمران جماعت نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آیا ان جماعتوں کے رہنما خود آتے ہیں یا انہیں لایا گیا ہے۔
شیخ رشید احمد نے ایک روز قبل مختلف میڈیا چینلز پر دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مکمل تیاری کر رکھی ہے لیکن جب عدالت میں پیش ہو کر دلائل دینا شروع کئے توو ہی پرانے دلائل اور وہی پرانی جگتیں۔ عدالت میں شیخ رشید جے آئی ٹی کے چھ ارکان کوسپر سکس کا لقب دینے کے ساتھ ساتھ انہیں سلیوٹ بھی کررہے تھے جبکہ اس سے پہلے جب سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی تھی توموصوف انہیں ’’جاتی عمرا انوسٹی گیشن ٹیم‘‘ کہہ ر ہےتھے۔ شیخ رشید نے اپنی ہی بنائی مثالوں سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن انکی توقعات کے برعکس سپریم کورٹ کے تینوں جج صاحبان نے سنجیدگی کامظاہرہ کیا۔