خود ہی کرتا ہے۔ آدمی ہی اپنا سب سے بڑا دوست ہے اور آدمی ہی اپنا سب سے بڑا دشمن۔
عربوں کا محاورہ یہ ہے: کلام الملوک، ملوک الکلام۔ بادشاہ کا کلام، کلام کا بادشاہ ہوتا ہے۔ سب سلطان اورنگزیب کی طرح فصیح نہیں ہوتے، جن کے جملے محاورے بن جاتے تھے، مثلاً جب اس نے یہ کہا ”سادات، بلگرام؟ چوب مسجد الحرام، سوختنی نہ فروختنی۔“ بادشاہ کی بات کو فصاحت کا نمونہ اس لئے کہا گیا کہ وہ صورتحال سے زیادہ آشنا ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں آجکل اعصاب اور قانون دانی کے امتحان کا دور چل رہا ہے۔ اگر اظہار خیال کیلئے قانون دانی اور نامزد وکیل ہونے کی شرط نہ ہوتی تو مجھ ایسے کتنے ہی لوگ ایوان عدل میں حاضر ہونے اور ہنر آزمانے کی آرزو کرتے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
فی الحال تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مشاعرہ لوٹ لیا ہے، اجمل نیازی کے سردار منیر نیازی کے کلام سے۔ اللہ اللہ نیازیوں میں شاعر پیدا ہونے تھے اور وہ بھی ایسے بے بہا۔
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
پیپلز پارٹی کی45 برس پر پھیلی ہوئی داستان بس اتنی ہے۔ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور کچھ اسے مرنے کا شوق بھی بہت ہے۔ ریاضت کیش، شعلہ گفتار، ذہین وفطین ذوالفقار علی بھٹو جمہوری تحریک کیلئے میدان میں اترے تو ان کی پیٹھ پر آٹھ برس کی کاسہ لیسی کا بوجھ تھا۔ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی خوشامد میں کیسا کیسا مصرع انہوں نے ارشاد نہ کیا تھا۔ کبھی سلطان صلاح الدین ایوبی سے مشابہت دی، کبھی ایشیا کا ڈیگال ٹھہرایا۔ کبھی تاحیات حکمران بنانے کی آرزو کی اور کبھی یہ مشورہ دیا کہ کمیونسٹ ممالک سے بھی ایک قدم آگے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کو حکمران جماعت کی زمام سونپ دی جائے۔ ایوب خان کو ان پر اتنا بھروسہ تھا کہ فرزندوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے۔ گوہر ایوب اور اختر ایوب کی تو کبھی پٹائی بھی ہو جاتی۔ لیکن نصرت بھٹو شکایت لے کر جاتیں تو زیادہ سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ ہوتی۔ یہ الگ بات کہ آخر کار وہی ہوا جو کار سیاست میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ محلاتی سازشیں، کچھ ادھر سے کچھ ادھر سے اور بیچ میں زعم کے مارے سادہ لوح ایوب خان، اکثر فوجی افسروں کی طرح جنہیں یہ گمان ہوا تھا کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کوئی سب کچھ نہیں کرسکتا ۔ کوئی نہیں کرسکتا ۔ صرف خدا ہی ایسا وجود ہے لیکن کیا کیجئے کہ بندوں کے دماغ میں خدائی کا فتور پیدا ہو جاتا ہے
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
خدائی نوا ہی ایک طرف، اس نادر روزگار شاعر یاس یگانہ چنگیزی نے یہ بات سمجھنے میں ایک عمر کھپا دی کہ وہ اسد اللہ غالب کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ قدرت خداوندی سے حقائق کے جو کوہسار اس زمین پر جنم لیتے ہیں بہترین انسانی ذہانت بھی انہیں موم نہیں کر سکتی۔ جہاں تک صلاحیت اور ادراک کا تعلق ہے، ذوالفقار علی بھٹو ایک باکمال لیڈر تھے لیکن تعصبات اور تکبرات کی شدت سے کبھی رہائی نہ پا سکے، چنانچہ ایک دن تاریخ کا رزق ہوگئے۔ بے شک غریب آدمی کے احساسات کو انہوں نے آواز بخشی، بھارت ایسے بدقماش حریف کو ٹھکانے پر رکھا، امریکیوں کا طنبورہ بننے سے انکار کر دیا اور ملکی عسکری تعمیر نو کی مگر مخالفین کا ہمیشہ مذاق اڑایا، انہیں گالی دی، حتیٰ کہ ساتھیوں میں سے جس کے ساتھ ناراض ہوئے اس کی زندگی اجیرن کر دی۔
ان داناؤں کو آدمی کیا کہے جو ارشاد کرتے ہیں کہ 1977ء میں فوج نے بھٹو کے خلاف سازش کی۔ سازش تو خود بھٹو نے اپنے خلاف کی تھی۔ پولیٹیکل سائنس کا سادہ سا اصول یہ ہے کہ اگر آپ 20فیصد آبادی کو مشتعل کرلیں تو حکومت نہیں فرما سکتے۔ بھٹو نے کم از کم 40 فیصد لوگوں کو برہم کر رکھا تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ افسر شاہی اور اپنی ذاتی فوج ایف ایس ایف کے بل پر برسراقتدار رہیں گے۔ ایسا اقتدار تو اللہ کا ہوتا ہے ۔وہ اپنے بندوں کی خطائیں بھی دائم معاف کرتا رہتا ہے۔ بھٹو تو ٹھوکر مارتے تھے ٹھوکر اور اس لئے کہ وہ خود فریبی کا شکار تھے۔ یہی خود فریبی بے نظیر میں منتقل ہوئی تو تعجب نہ ہونا چاہئے۔ بیٹیوں کو باپ سے ایسی ہی محبت ہوتی ہے۔ اگر وہ اس مغالطے میں مبتلا رہیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر قوم کو متحد کر سکیں گی تو انہیں معاف کر دینا چاہئے۔ ایک بیٹی کو باپ کے معاملے میں ہمیشہ معاف کر دینا چاہئے۔ بے نظیر بھٹو اگر تاریخی شعور سے بہرہ ور ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ صلاح الدین ایسی نادر ونایاب مستثنیات کے سوا کبھی کسی قوم میں کوئی ایک شخص نہیں ہوتا جس کے نام پر قومیں یکجا ہو سکیں، حتیٰ کہ قائداعظم جیسے جلیل القدر رہنما پر سو فیصد لوگ کبھی متفق نہ ہوں گے۔ منتقم مزاج بھٹو تو ان کا عشر عشیر بھی نہ تھے۔ کیا ابراہام لنکن امریکہ کے غیرمتنازع لیڈر تھے ۔ایسا شخص کتابوں کے مطالعے نہیں بلکہ صدیوں کے تجربات سے جنم لیتا ہے۔
آصف علی زرداری کا رویہ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ اگر آپ کو ایک سیاسی بیان جاری کرنا ہے تو کر لیجئے، دستور پسند محمد علی جناح کے منشور سے۔ چلئے اب سوئے پیمان وفا سے۔ بے نظیر کو کون لیڈر مانتا ہے، بھٹو کو کون مانتا ہے۔ جی ہاں 30/35 فیصد لوگ ان کے دلوں سے اور اگر ضرورت پڑے تو غیر ملکیوں کے ساتھ ساز باز سے پیپلز پارٹی اقتدار حاصل کر لیتی ہے۔ پہلے اثاثے پر وہ مبارکباد کی مستحق ہے اور دوسرے پر مذمت سے زیادہ اظہار ہمدردی کی۔ جو غیرملکی سہارے طلب کریں گے، غالی حامیوں کے سوا، باقی سب لوگ انہیں شک کی نظر سے دیکھیں گے کبھی پوری طرح ان پر اعتبار نہ کریں گے۔ تحفظات دائم رہیں گے، دائم۔ بے شک ان کے خلاف سازشیں ہوئیں مگر بے نظیر ان سازشوں کی وجہ سے ناکام نہ ہوئیں بلکہ المناک مالی بدعنوانیوں، بھارت کے ساتھ مشترکہ کرنسی اور مشترکہ صدر ایسے بیانات اور اس سے بڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو کو قائداعظم تسلیم کرانے کی جستجو اور آرزو سے۔
آصف علی زرداری کے خلاف بھی سازشیں جاری ہیں لیکن اپنے خلاف سب سے بڑی سازش کے مرتکب تو وہ خود ہیں۔ قوم سے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بھٹو ہی نہیں، بے نظیر کو بھی ابراہام لنکن مان لیا جائے۔ حال ان کا یہ ہے کہ معاشرے کی تلچھٹ کو انہوں نے مناصب سونپ دیئے۔ خود اپنی فوج کے خلاف، امریکہ کے سامنے وعدہ معاف گواہ بن گئے اور چاہتے ہیں کہ قوم ان پر ایمان لے آئے۔ نہیں، اس جہان میں کوئی کسی کو برباد نہیں کرتا۔ آدمی خود ہی کرتا ہے۔ آدمی ہی اپنا سب سے بڑا دوست ہے اور آدمی ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولا برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا