آیئے رخسانہ سے ملیں ۔آج سے بیس سال پہلے جب وہ نو سالہ کی ہنستی کھیلتی اور معصوم بچی تھی، امتحان دے کر گھرپہنچی تو گھر میں رکھاسلینڈراچانک پھٹ گیا۔یوں جیسے سلینڈر اس کے گھر آنے کا ہی منتظر ہو۔
ایک لمحہ میں رخسانہ جھلسی گئی۔جلد سیاہ ہوگئی، چہرہ جل گیا، ہاتھوں پر آبلے پڑ گئے ۔ اس کا بچپن، ہم جولیاں،کھیل ، کھلونے اورسپنے سب سیاہ دھواں بن کر اڑ گئے۔ ماں باپ کے خواب اور ارمان بھی سلینڈر کے ٹکروں کی ساتھ پھٹ کر ہوا میں تتربتر ہو گئے۔
آگ نے گھنے ،لمبے بال، پلکیں، بھوئیں ہی کیا ۔۔رخسانہ کا پوراجسم ہی بھسم ہوگیا ۔ اتنی بری حالت میں نو سالہ بچی کو کومہ میں توجانا ہی تھا۔
زندگی اور موت کی کشمکش سے نکلنے میں اسے دو ماہ لگے ۔
آج اس واقعے کو کئی برس بیت چکے ہیں۔ رخسانہ ناصرف خود صدمے سے پوری طرح نکل چکی ہے بلکہ اب دوسروں کے لئے جینے کی امید ، خوشی کی کرن بن گئی ہے۔ کراچی کے علاقے بہادر آباد کے ایک بیوٹی پارلر میں وہ پروفیشنل بیوٹیشن کی حیثیت سے ملازمت کرتی ہیں۔
رخسانہ کا کہنا ہے کہ’ خواب تو اس کا بھی پڑھ لکھ کر ٹیچربنے کا تھا لیکن ـحادثہ پیش آیا تو چوتھی جماعت کی طالبہ پھر کبھی معمول کی طرح اسکول جاہی نہ سکی۔ ہاں ! وہ ایک دو دن کے لئے اسکول گئی ضرور لیکن سہیلیاں اسے دیکھ کر ڈرگئیں ۔ ۔۔اور یوں سب کے درمیان رہتے ہوئے بھی وہ اکیلی ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ اسکول کو خیرآباد کہنا پڑا۔
رخسانہ کی کہانی میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنی کہانی کی خود ہیروئن ہے ۔ آج اگر وہ پر اعتماد ، مہذب اور تعلیم یافتہ لگتی ہے تو اس میں اس کےوالد اور وقت کا بڑا کردار ہے۔
وہ کہتی ہے کہ’میں جب اس بیوٹی پارلر میں آئی تھی تو چودہ سال کی خوفزدہ ، کمزور اور بات بات پر رونے والی رخسانہ تھی۔ ان پندرہ سالوں کا کمال دیکھیں کہ ایک جلی اور جھلسی ہوئی نوعمر لڑکی پروفیشنل ورکنگ ویمن بن گئی۔‘
رخسانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب بیٹھنا نہیں ہے ۔رکنا تو بالکل بھی نہیں ، بلکہ چلتے رہناہے ۔ ایسے میں گھر والوں نے اسے باہر نکال کر مقابلہ کرنا سکھادیا تھا۔ اس نے بھی یہ بات گرہ میں باندھ لی تھی کہ "آپ حسین ہوتے ہیں، تو بھی لوگ آپ کو مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں۔ ہاں وہ تھوڑی الگ سی تھی ۔ لوگ اسے بھی دیکھتے ہیں تو دیکھنے دو "
’رخسانہ اپنے لئے خود سے لڑی کیونکہ کوئی کسی کے لئے نہیں لڑتا۔ ‘میں اس کی دبنگ اور مسکراہٹ بھرے چہرے کودیکھ رہی تھی کہ" حادثے نے اسے بہت کچھ سکھادیا ۔
’’ میں اس کی بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ معاشرہ یا توہم سے خوش ہوتا ہے، یا ہم پر جملے کستا ہے۔ ‘‘
لوگوں کے دوغلے رویئے رخسانہ کو بھی تکلیف دیتے ہیں لیکن اس کا کہنا ہے ’تکلیف کا کیا ہے؟ تکلیف بھی ایک فطری احساس ہے ۔ جیسے بھوک ، غم اور خوشی کا احساس۔ ‘
رخسانہ کے اب تک ملکی اور غیر ملکی سرجنز کے ہاتھوں 40آپریشنز ہوچکے ہیں۔ وہ کہتی ہے ’مشکلیں اتنی پڑئیں کہ آساں ہو گئیں ۔۔۔ چالیس آپریشن کرانا آسان کام نہیں ہے ؟‘
رخسانہ کے اس کربناک سفر کے دوران لوگوں کے رویوں اور لہجوں میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں ۔وہ کہتی ہیں اب رشتے دار آگے بڑھ کر اور خوش ہو کر ملتے ہیں۔ پہلے وہ خاندان میں آتی جاتی نہیں تھی ۔ دو سال پہلے ایک شادی کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شادی میں لوگ دلہن کے بجائے انہیں حیرت زدہ نظروں اسے دیکھ رہے تھے۔
نو سال کی بچی حساس تھی مگرآج کی رخسانہ لوگوں کی سچائی جان لیتی ہے ۔ وہ کہتی ہے’ مجھے آپ ہمددری سے دیکھیں گی تومیں وہ بھی محسوس کرلوں گی ، آپ کا پیار بھی اور آپ کی ٹیڑھی نظر بھی مجھے سب بتا دے گی۔
وہ کہتی ہے ’’شروع میں کسٹمر رخسانہ کی شکل دیکھ کر ان سے کام کراتے ہوئے ہچکچاتے تھے ۔ ایک دن بیوٹی پارلر کی مالک مسرت مصباح نے کسٹمر کےہچکچانے پر کہا کہ ان کے پاس بہت سے آپشنز ہوں گے لیکن میرے پاس صرف یہی پارلر ہے ۔اس لئے وہ کہیں اور جانا چاہیں تو جاسکتی ہیں ۔ان کی باتوں نے مجھے اعتماد بخشا۔ پہلے میں چپ ہو کر پیچھے ہٹ جاتی تھی لیکن اس دن کے بعد سے میں خود آگے بڑھ کر کسٹمر سے پوچھتی ہوں کہ ’’میں کروں آپ کا میک اپ۔۔؟‘‘