خاک اڑاتی مٹی ، گرم ہوائوں کے تھپیڑے ، ریت کے اونچے نیچے بنتے بگڑتے ٹیلے اور مٹی کے بگولوں کے بغیر ہمارے ریگستانوں اور صحرائوں کی منظر کشی نا مکمل ہے۔
چند ماہ پہلے تک سندھ کے صحرائے تھر سے قحط سالی ، بنیادی سہولیات کی کمی ، بڑے پیمانے پر ہونے والی بچوں کی اموات اور قدرتی حسن کو چار چاند لگانے والے مور وں کی دم توڑتی تصاویر خبروں کی زینت بنتی تھیں ۔
جہاں بارشوں نے پورے پاکستان میں جل تھل ایک کیا ،وہیں تھر میں بھی اس زور سے برکھا برسی ہے کہ اس وقت سبزے سے ڈھکا تھر اپنے پورے جوبن پر ہے ۔
اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں فیملی کو لے کر کہیں نہیں نکلے، تو مزید دیر نہ کیجیے۔ تین چار دن کے لئے گھومنے نکل جائیں ۔ سمندر یا فارم ہائوس تو جاتے ہی رہتے ہیں۔اس بار" چلتے ہیں تو تھر کو چلئے " ۔
ہم کراچی والے جو کنکریٹ کے گھروں میں رہتے رہتے قدرتی حسن کو بھول بیٹھے ہیں ، صحرائے تھر تیزبارش اورکبھی بوندا باندی کے ساتھ خوش آمد ید کہنے کو بے قرار ہے ۔لمبے عرصے بعد ہونے والی مون سون بارشوں نے صحرا تھرکو ایک بار پھر ’دلہن بنا دیا‘ہے ۔
ہم نے صحرا کا قصد" ـ جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا " گنگناتے ہوئے کیا تھا لیکن یہاں کی ہریالی اورسبزہ اتنا متاثر کن تھا کہ سارا سفر سبحان اللہ کہتے گزرا ۔’کنٹینر سٹی‘ پر اترتے ہی ٹھنڈی ہوائوں نے احمد رشدی اور مالا کا سدا بہار گانا " چلے ٹھنڈی ہوا تھم تھم" گنگنانے پر مجبور کر دیا۔
ریگستانی رہن سہن اور بود وباش والے تھری بچے ، بڑے اور بوڑھے آپ کو دیکھ کر سادگی سے مسکرا دیتے ہیں لیکن حضرات یاد رہے !سفید چوڑیوں سے بھرے ہاتھوں اور بڑے بڑے گھونگھٹ نکالے تیز تیزرنگوں والے لباسوں میں تھری خواتین کو دیکھ کر خود اپنی نظریں نیچے یا نظاروں پر مرکوز کر لیں ورنہ نتائج کے ہم ذمہ دار نہیں۔ !!
بیگمات سے بھی گزارش ہے کہ حسین نظاروں کی وجہ سے ’ ان‘کی نظریں’ آپ ‘کے چہرے پر نہیں بلکہ نظاروں پر ہوں گی اس لئے وہ پریشان نہ ہوں ۔
کہیں آپ کو برستی بارش میں پر پھیلائے مورملیں گے توکبھی بیچ سڑک میں سانپ سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی تھرپارکر کے ساتوں تعلقوں میں راجستھانی رنگ لئے ہندو کمیونٹی صدیوں سے رہتی بستی آرہی ہے ۔
مزے کی بات کہ آپ پورے ماحول میں ہندو مسلم آبادی میں کوئی تفریق نہیں کر سکتے۔ نہ خواتین کے لباسوں سے نہ گھروں سے ۔ یہاں ہر چیز یکسانیت لئے ہوئے ہے۔ ہماری بات کی تائید اسلام کوٹ کےسنت نیٹو رام آشرم کی پیچائیت کے مہادیو نے بھی کی ۔
جہاں اس وقت ننگرپارکر، کے ہرے بھرے پہاڑ آپ کو اپنی طرف کھنچیں گے وہیں خاص ہندو تہذیبی رنگ کے ساتھ ساتھ ہزار سال پرانے جین مذہب کے تہذیبی آثار بھی آپ کے منتظر ہیں۔
لیکن خیال رہے کہ یہ علاقہ رن آف کچھ اور اندو پاک سرحدی پٹی پر واقع ہے ۔ اس لئے ہمار ے محافظ آپ سے کچھ پوچھ گچھ کرسکتے ہیں۔ اس لئے دوران سفر دفتری اور قومی شناختی کارڈ اپنے پاس رکھیں۔
مٹھی میں مقامی سبزیوں میں ہرے سردے اور تربوزٹھیلے پر بکتے پہلی بار دیکھے ۔خاص تھری سوغات کلفے کا ساگ اور تازہ مشروم ہیں ۔آپ بھی ٹن مشروم چھوڑ کر تازہ تازہ مشروم کھا کر دیکھیں ۔ جگہ جگہ بچے مشروم بیچتے نظر آئے۔یعنی تھر کی زمین ،مشروم کی پیداوار کے لئے بہت سازگار ہے ۔ سندھ حکومت کو بھی اس کی پیداوار بڑھانے کے لئے توجہ دینا چاہیے۔ بلکہ یہ کراچی تک آنی چاہیں ۔ یقیناً مقامی آبادی کے لئے روزگار بڑھیں گے۔
تھر کول پروجیکٹ کی وجہ سے یہاں راستے اور سڑکیں اچھی بن گئی ہیں ۔ ہوٹل اور بڑے دھابے اچھی خاصی تعداد میں کھل گئے ہیں ۔ کراچی سے تفریح کی غرض سے آئی ہوئی ایک فیملی نے بتایا کہ" وہ صبح اسلام نگر پہنچے ہیں اور پھر آگے نگرپارکر جا رہے ہیں جہاں بارش کے بعدقدرت کے رنگ ہی الگ ہیں۔‘
بچے ، عورتیں ،بزرگ پانی کی تک و دو میں نظر آتے ہیں۔پانی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس لئے پینے کا پانی اپنے ساتھ لے کر چلیں ۔
چند دوائیں بھی اپنے ساتھ رکھیں کیونکہ بنیادی سہولیات کی کمی ہےاور صحت کے مسائل تو سب جانتے ہیں۔ گھر کے چولہے جلانے کے لئے لکڑیوں کے بڑے بڑے گٹھرسرپر لادے ہوئے تھری عورتیں قابل تعریف ہیں۔
یہاں جو رنگا رنگی اور دلکشی برسات نے پیدا کر دی ہے کہیں اس کے رنگ تیز دھوپ پڑنے سے پھیکے نہ پڑ جائیں، اس لئے آپ دیر نہ کریں اور فوراً تھر گھوم آئیں۔
پرسکون صبح میں سفید چاند بیلوں کے غول کے غول اور اس خاموش منظر کوتوڑتی ہوئی ان کے گلوں میں پڑی گھنٹیوں کی جلترنگ بڑی سکون پرور ہے اس لئے اپنی گاڑی ہے تو دو سے تین دن کا سامان لیجئے اور نکل پڑیئے۔