کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما اور وزیرریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر عمل درآمد ہوگا، معزز بینچ کے بننے پر بھی ہمارے وکلا کو حیرت ہوئی ،عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ہونا چاہیے ، اللہ خیر کرے گا ہم کیوں کچھ ایسا سوچیں جس سے دوسری صورتحال پیدا ہو، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے،اللہ خیر کرے گا ،جو بھی صورتحال ہوگی اس کا سامنا کریں گے ،قانونی مشیر کے مطابق 2 فاضل جج صاحبان پہلے ہی رائے کا اظہار کرچکے ۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہاکہ شریف خاندان نے تین نسلوں کا رکارڈ عدالت میں پیش کیا،کیس کا فیصلہ تو آنا تھا،سب کو کیس کے فیصلے کا انتظار تھا۔شریف خاندان کا تمام ریکارڈ سچ پر مبنی ہے اس لئے مطمئین ہیں ۔بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ہمارے آئین اور قانون میں ایک گیپ ہے، ریویو ہوسکتا ہے اور وہ ریویو بھی انہی ججوں کے پاس جائے گا۔
شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے، سپریم کورٹ سب سے اہم کیس کا فیصلہ کل سنائے گے، دونوں صورتوں میں تاریخ رقم ہوگی چاہے فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے یا ان کے خلاف آئے، سب سے بڑے کیس کا سب سے بڑا فیصلہ کل آئے گا، چند گھنٹوں بعد پتا چل جائے گا کہ وزیراعظم نواز شریف اہل رہیں گے یا اہل نہیں رہیں گے، یہ ملک کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہوگا، مستقبل کی سیاست کے رخ کا تعین بھی کرے گا اور شاید بدلے گابھی۔ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بنچ اہم ترین فیصلہ سنائے گا، آج جو کنفیوژن پائی جاتی تھی، متعدد ماہر قانون ہمارے شواور میڈیا پر آکر کہتے رہے ، کسی نے کہا تین رکنی بنچ فیصلہ کرے گا، کسی نے کہا پانچ رکنی بنچ۔
آج عدالت نے بتادیا کہ فیصلہ اوریجنل پانچ رکنی پاناما بنچ ہی کرے گا، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن لارجر بنچ کا حصہ ہوں گے اور یہ وہی بنچ ہے جس نے چار جنوری سے تیئیس فروری تک پاناما کیس سنا اور پھر بیس اپریل کو دو ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا، اب یہ جو دو ججز ہیں ان کا فیصلہ کیا وہی رہے گا، باقی تین ججز میں سے کسی ایک نے ان کی طرف جانا ہے تو وزیر اعظم نااہل ہوسکتے ہیں یا یہ دو ججز بھی اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں۔
مگر اگر یہ دو ججز فیصلہ بدل سکتے ہیں، اس کی قانونی گنجائش موجود ہے تو پھر ان دو ججوں نے جے آئی ٹی کی پروسیڈنگز تو سنی نہیں، جے آئی ٹی کی پروسیڈنگز پر مختلف وکلاء نے جو دلائل دیئے وہ تو سنے نہیں تو پھر یہ معاملہ کیا ہوگا، باقی تین ججز نے نااہلی کے بجائے مزید تحقیقات پر اتفاق کیا، پھر تیرہ سوالات کی مزید کھوج کے لئے جے آئی ٹی بنی، اس جے آئی ٹی نے فیصلہ دیا، اس پر سماعتیں ہوئیں اور اب یہ فیصلہ ہونے جارہا ہے، آج چوہدری نثار بھی میڈیا کے سامنے آئے، وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے لیکن میاں نواز شریف کو نصیحتیں کیں، خوشامدی ہیں اشاروں میں بتایا میاں نواز شریف کے آس پاس، یہ بات بھی کی، ساتھ میں انہیں نصیحت کی کہ اگر آپ نااہل نہ ہوں تو اپنے قدم زمین پر رکھئے گا اور اگر نااہل ہوجائیں تو ملک کی خاطر ذمہ داری دکھایئے گا، قانونی پہلو کیا ہے اس پر بات کریں گے، ن لیگ میں کیا ہورہا ہے، ہائوس آف شریف میں کیا ہورہا ہے اس پر بھی بات کریں گے، سب سے پہلے سعد رفیق ہمارے ساتھ موجود ہیں، سعد رفیق صاحب کتنی پریشانی ہے، کل صبح گیارہ بج کر تیس منٹ پر فیصلہ آنا ہے، تین رکنی بنچ نے فیصلہ نہیں کرنا اسی پانچ رکنی بنچ نے کرنا ہے جس میں سے دو ججز پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے، ایک جج نے صرف اس طرف جانا ہے اور میاں نواز شریف نے ڈس کوالیفائی ہوجانا ہے، کتنی پریشانی ہے؟
خواجہ سعد رفیق: شاہزیب صاحب پریشانی تو کوئی بات نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور بڑے بڑے دھچکے بھی ہم نے برداشت کیے ہیں، ہمیں نہیں معلوم صبح کیا ہوگا وہ تو اللہ کریم کو معلوم ہے یا جج صاحبان کو پتا ہوگا کہ کیا ہوگا لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے قانونی مشیروں نے جو ہمیں رائے دی اور بات بتائی ہے اس کے مطابق جو سمجھ نہیں آرہا وہ یہ ہے کہ دو فاضل جج صاحبان تو پہلے ہی اپنی رائے کا اظہار فرماچکے ہیں اور ہمارے قانونی مشیروں کی دانست میں یہ ایک نیا بنچ تھا جس کے اندر جے آئی ٹی رپورٹ کو ڈسکس کیا گیا ہے، ہمارا موقف سنایا گیا، مدعیان کا موقف سنا گیا، اب جو دو فاضل جج صاحبان پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکے تھے ڈس کوالیفکیشن کا وہ کرپشن کی بنیاد پر نہیں بلکہ تقریر کی بنیاد پر دیا تھا انہوں نے تو جے آئی ٹی کی رپورٹ کو اس طریقے سے ان کے سامنے وہ پیش ہی نہیں ہوئی یعنی نہ سوال ہوئے نہ جواب ہوئے نہ استغاثہ کا موقف آیا نہ ہمارا موقف آیا، بہرحال یہ ایک بنچ بنا ہے ہم نے سنا ہے ایسی کوئی نظیر پاکستان میں پہلے موجود نہیں ہے جیسے جے آئی ٹی بنی تھی تو وہ بھی پہلی بار سپریم کورٹ نے ہم نے سنا ہے بنائی تھی جو ہمیں وکلاء صاحبان بتاتے ہیں تو بہرحال اللہ خیر کرے گا، جو بھی صورتحال ہوگی انشاء اللہ اس کا سامنا کریں گے۔
شاہزیب خانزادہ: اللہ سے تو خیر کی توقع رکھنی چاہئے لیکن انسان اپنی اسٹریٹجی بھی بناتا ہے، کل تک نہیں مان رہے تھے آپ، آپ کہہ رہے تھے ایسی کوئی ڈسکشن ہو ہی نہیں رہی، معاملہ ہو ہی نہیں رہا کہ نواز شریف کے بعد وزیراعظم کس نے بننا ہے، اگر شہباز شریف نے بعد میں بننا ہے تو عبوری کس نے بننا ہے، اب نہ کہئے گا کہ ابھی تک بات نہیں ہورہی ہے، صرف ساڑھے تیرہ گھنٹے رہ گئے ہیں فیصلہ آنے میں، آپ اب بھی یہ کہیں گے؟
خواجہ سعد رفیق: بات یہ ہے کہ ابھی تک اس پر بات نہیں ہوئی، ابھی ہم نے سوپ پیا ہے کچھ دوستوں نے بیٹھ کر، گپ شپ کی ہے لیکن پی ایم صاحب تو پی ایم ہائوس میں ہے، اس پر مشاورت پہلے کرنے کی شاید ضرورت بھی نہیں تھی، دیکھتے ہیں اللہ خیر کرے گا، ہم کیوں کوئی ایسی سوچ سوچیں جس سے کوئی اور سچویشن نکلتی ہو، اللہ خیر کرے گا۔شاہزیب خانزادہ: ساتھ یہ بتائیں کہہ تو رہی ہے ن لیگ آپ کہہ رہے ہیں خیر کرے گا، فیصلہ مانیں گے بھی مگر فیصلہ ماننا ایک بات ہے اور فیصلہ قبول کرنا دوسری بات ہے، اگر ایک سیاسی لیڈر فیصلہ مان لے تو ظاہر ہے عدالت کا فیصلہ ہے وہ آپ مانیں گے، مگر قبول نہ کریں توا س کے الگ consequences ہوتے ہیں، تو فیصلہ میاں صاحب مانیں گے بھی جو بھی آیا اور قبول بھی کریں گے؟
خواجہ سعد رفیق: مجھے معلوم نہیں ہے، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے، فیصلے جو قبول کیے جاتے ہیں یا منظور کیے جاتے ہیں وہ دنیا میں وہ فیصلے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ رائے ہوتی ہے جس کے حق میں یا جس کے خلاف فیصلہ آتا ہے کہ یہ فیصلہ انصاف اور قانون کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، ہمارے تحفظات رہے ہیں جے آئی ٹی کی تشکیل سے لے کر ان کے کام کے طریقہ کار پر، اب یہ معزز بنچ بنا ہے تو اس پر بھی ہمارے وکلاء کو حیرت ہوئی ہے کہ اس کی فارمیشن پر، بہرحال جو بھی حکم آئے گا وہ سر آنکھوں پر اس پر عملدرآمد ہوگا ۔