کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئےکے پی کےسابق وزیر ضیاء اللہ آفریدی نے کہا کہ میں نے جو باتیں کی تھیں آج وہ درست ثابت ہورہی ہیں، مجھے عمران خان جیسے لیڈر پر افسوس ہے، صرف میں نے ہی نہیں عمران خان کے چہیتے عاطف خان ،شہرام خان اورجنرل حامد سب نے پرویز خٹک کو کرپٹ وزیراعلیٰ قرار دیاہے لیکن عمران خان خاموش ہیں، سمجھ نہیں آتا عمران خان کیوں پرویز خٹک کی کرپشن پر خاموش ہیں، خیبربینک اسکینڈل میں بھی سب سے بڑا ملزم پرویز خٹک ہے، ایم ڈی خیبربینک کی تقرری بھی پرویز خٹک کے دستخط سے ہوئی تھی، اگر وہ میرٹ کیخلاف بھرتی ہوا تو بھی پرویز خٹک اس کا ذمہ دار ہے، ایم ڈی خیبربینک کے تمام غیرقانونی اقدامات میں پرویز خٹک برابر کے شریک ہیں۔
ضیاء اللہ آفریدی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں احتساب ہوتا تو پرویز خٹک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہا ہوتا، جس شخص نے تحقیقات کی ہے وہ بطور پرویز خٹک کے ایجنٹ احتساب کمیشن میں کام کررہا ہے، اس کی تصاویر اور شہادتیں سات آٹھ مہینے پہلے میڈیا پر دکھا چکا ہوں، میرے موبائل پر عمران خان کے ساتھ کیے گئے وہ ٹیکسٹ میسیج موجود ہیں، میں نے اپنی گرفتاری کے فوراً بعد عمران خان کو میسیج کیے کہ فلاں فلاں بندہ آپ کو اور احتساب کے عمل کو نقصان پہنچارہا ہے لیکن وہ خاموش رہے،عمران خان کو چیلنج کرتا ہوں پی ٹی آئی کا کوئی بھی شخص ساتھ بیٹھ جائے اگر میں پرویز خٹک پر الزام ثابت نہ کرسکوں تو ہر سزا کیلئے تیار ہوں۔ ضیاء اللہ آفریدی نے کہا کہ عمران خان کی موجودگی میں میری پرویز خٹک سے لڑائی ہوئی تھی، میری گرفتاری کا مقصد سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے، عمران خان کی شاید کوئی مجبوری ہے جو پرویز خٹک کے ہاتھوں بلیک میل ہورہے ہیں، پرویز خٹک کا مائننگ اور سیمنٹ انڈسٹری سے متعلق بہت بڑا اسکینڈل آنے والا ہے، پرویز خٹک بہت ٹیکنیکل طریقے سے کرپشن کرتا ہے۔
میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی سابق رہنما عائشہ گلالئی کی طرف سے عمران خان اور پارٹی پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں، پارٹی میں خواتین کا کردار نہ ہونے کا الزام صرف عائشہ گلالئی نے ہی نہیں ناز بلوچ نے بھی لگایا تھا، مگر عائشہ گلالئی کے کچھ الزامات ذاتی نوعیت کے ہیں جن کا تعلق عمران خان سے ہے،عائشہ گلالئی نے یہ بھی الزام لگایا کہ انہیں پیغامات آتے تھے، اکتوبر 2013ء میں عمران خان کی طرف سے انہیں ٹیکسٹ میسیجز اور بلیک بیری بی بی ایم میسیجز آئے اور وہ بتا بھی نہیں سکتیں کہ اس میں کس قسم کا ٹیکسٹ تھا، عائشہ گلالئی کے سنگین الزامات کو تحریک انصاف کے رہنمائوں نے مسترد کردیا ہے، شیریں مزاری منگل کو اس حوالے سے میڈیا کے سامنے آئیں، تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عائشہ گلالئی کو ایک منصوبے کے تحت استعمال کیاجارہا ہے، شیریں مزاری نے یہ بھی کہا کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کی تحقیقات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
عائشہ گلالئی یہ الزام لگانے والی پہلی شخصیت نہیں ہیں یہ الزامات بارہا لگتے رہے ہیں۔ فوزیہ قصوری بھی تحریک انصاف کے امتیازی سلوک کا شکار ہیں،پانچ سال پہلے شیریں مزاری بھی بیہودہ الزامات کی شکایت کرچکیں ہیں۔سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ ن لیگ تحریک انصاف کو ناکام کرنے کیلئے کسی کو بھی استعمال کرنے کیلئے تیار ہوگی، عائشہ گلالئی ن لیگ کے ہاتھوں میں نہیں کھیل رہی بلکہ اپنے دل کی بات کررہی ہے، ایسا لگتا ہے عائشہ گلالئی کو کوئی صدمہ پہنچا ہے، عائشہ گلالئی پی ٹی آئی چھوڑ کر فی الحال کسی پارٹی میں نہیں جائے گی اور نہ ہی ایم این اے کی نشست سے استعفیٰ دے گی، عائشہ گلالئی جو بات کررہی ہے اسے اہمیت ملنی چاہئے، عائشہ گلالئی نے جو ذاتی الزامات لگائے ان کے ثبوت ہیں تو تحقیقات ہونی چاہئے، عائشہ گلالئی تحریک انصاف میں رہتی تو آئندہ بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتی، کسی اور پارٹی میں جائے گی تو ضروری نہیں ٹکٹ مل جائے۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ عائشہ گلالئی ہمیشہ انتہائی پوزیشن لینے کی عادی رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ عائشہ گلالئی کے دل میں لاوا پک رہا تھا،اس کے کچھ مطالبات اور خواہشات تھیں، عائشہ گلالئی نے عمران خان پر واحد الزام ٹیکسٹ میسیجز کے حوالے سے لگایا، وہ جن ٹیکسٹ میسیجز کی بات کررہی ہے انہیں باہر آنا چاہئے اور تحقیقات ہونی چاہئے۔ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز کو پرویز خٹک سے بہت شکایات ہیں،چونکہ ایم این ایز کے پاس فنڈز نہیں ہیں اس لئے وہ پرویز خٹک سے فنڈ مانگتے ہیں لیکن وزیراعلیٰ ان کی بات نہیں سنتے بلکہ ایم پی ایز کو فنڈز دیتے ہیں چاہے ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہویا دوسری جماعتوں سے ہو، پرویز خٹک روایتی سیاستدان اور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں، پرویز خٹک پر کافی لوگوں نے سنگین الزامات لگائے ہیں، خیبرپختونخوا حکومت کا احتساب کمیشن مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، نیب نے خیبرپختونخوا میں کئی لوگوں کو پکڑا ہے، پرویز خٹک کے خلاف الزامات پر نیب کو ان کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے تھی، عائشہ گلالئی نے کچھ عرصہ صحافت کی پھر پیپلز پارٹی میں رہی اور وہاں سے تحریک انصاف میں آگئی تھی۔
شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ تحقیقات کیوں نہیں ہونی چاہئے، تحقیقات ہونے کی دو وجوہات ہیں، ایک وجہ کا تعلق عمران خان اور دوسری کا عائشہ گلالئی سے تعلق ہے، تحقیقات اس لئے ہونی چاہئے کہ عائشہ گلالئی پختون فیملی اور وزیرستان سے تعلق ہوتے ہوئے سیاست میں آئی ہیں اور اگر یہ ساری باتیں کررہی ہیں تو صرف یہ کہہ دینا درست نہیں کہ وہ استعمال ہورہی ہیں، عائشہ گلالئی کی جانب سے پارٹی قیادت پر ہراساں کرنے کے الزامات ہیں تو تحقیقات ہونی چاہئیں، تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ کل کوئی بھی اس طرح اٹھ کر کسی مقبول سیاستدان کیخلاف بات نہ کررہا ہو اور وہ دوبارہ میڈیا کی ہیڈلائنز نہ بن جائیں، اگر عائشہ گلالئی نے عمران خان کیخلاف جھوٹے الزامات لگائے ہیں تو ان کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئے، تحقیقات ہر دو صورتوں میں لازمی ہے، اگر ایک عورت اس معاشرے میں کہہ رہی ہے اسے ہراساں کیا گیا تو بھی تحقیقات لازمی ہے اور اگر ایک مقبول سیاسی لیڈر پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے تو اس صورت میں بھی تحقیقات ہونی چاہئیں، تحریک انصاف ان سنگین الزامات کے باوجود کیوں کہہ رہی ہے کہ تحقیقات نہیں ہونی چاہئیں، پاکستان تحریک انصاف تو ہر معاملہ میں تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے، الزام لگا کر یہ بھی کہتی ہے کہ تحقیقات ہوں اور ثبوتوں کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جن پر الزام لگایا گیا ہے،اس کے علاوہ بھی پی ٹی آئی کی پریس کانفرنس میں دلچسپ صورتحال دکھائی دی، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما صحافیوں سے بھی الجھے۔
شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ایک مسئلہ تو عائشہ گلالئی کے ذاتی نوعیت کے الزامات ہیں دوسرا مسئلہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف میں خواتین کا کردار بہت کم ہورہا ہے، منگل کو عائشہ گلالئی کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا اس سے پہلے ناز بلوچ بھی کہہ چکی ہیں پارٹی پر مردوں کا غلبہ ہے اور خواتین کا کوئی کردار نہیں ہے، یہ بات بار بار ہورہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں خواتین کردار نہیں ہے، پی ٹی آئی کی ایک اور رہنما ملائکہ رضا جو پیپلز پارٹی میں چلی گئی ان کی طرف سے بھی کہا گیا کہ خواتین کا پالیسی سازی میں کوئی کردار نہیں، پالیسی سازی میں خواتین کو جائز مقام نہ دینے پر سب سے پہلے میں نے احتجاجاً پارٹی چھوڑی، ناز بلوچ ہوں، عائشہ گلالئی ہوں یا ملائکہ رضا ہوں ان سب کی طرف سے ایک ہی تنقید آرہی ہے کہ تحریک انصاف میں خواتین کا کردار نہیں ہے، فوزیہ قصوری بھی تحریک انصاف کے امتیازی سلوک کا شکار ہیں، تحریک انصاف کو یہ تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی خواتین کو، ان کی اِن پُٹ کو اور ان کی پوزیشن کو اہم نہیں سمجھتی ہے، ناز بلوچ نے بھی کہا کہ حالیہ انتخابات میں عمران خان کے اردگرد تمام لوگ مرد ہیں ان میں بھی کوئی خاتون نہیں ہیں۔
شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عائشہ گلالئی نے کچھ ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے جبکہ مزید الزامات کرپشن کے حوالے سے ہیں، کرپشن کا تعلق عمران خان کی ذات سے نہیں بلکہ پرویز خٹک کی ذات سے ہے، عائشہ گلالئی یہ الزام لگانے والی پہلی شخصیت نہیں ہیں یہ الزامات بارہا لگتے رہے ہیں، عمران خان خود کہتے رہے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف کھڑے ہیں مگر پرویز خٹک کی طرف سے مائننگ کے جو سودے ہیں ان میں ان کا کہنا تھا یہ الزامات ہیں، عمران خان خیبرپختونخوا میں کرپشن پر قابو پانے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، خیبرپختونخوا میں احتساب کمیشن بھی بنایا گیا، پی ٹی آئی یہ بھی الزام لگاتی رہی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے دور میں بھرپور کرپشن کی لیکن آج تک اے این پی کی کوئی کرپشن نہیں پکڑی گئی، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت قومی وطن پارٹی سے جب اتحاد ختم ہوا تو عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا کہ وہ کرپشن کرتے تھے لیکن ان کیخلاف کرپشن کی کیا تحقیقات ہوئی اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔
شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عائشہ گلالئی کی طرف سے کہا گیا کہ عمران خان نہیں دیکھتے کہ پرویز خٹک کس طریقے سے کرپشن میں ملوث ہیں، گزشتہ سال جون میں تحریک انصاف کے پانچ ارکان قومی اسمبلی بابر کنڈی، امیر مروت، ساجد نواز، جنید اکبر اور خیال زماں آفریدی نے پرویز خٹک کے خلاف چارج شیٹ جاری کردی تھی، انہوں نے قومی اسمبلی میں موقف اختیار کیا کہ پرویز خٹک کے باعث صوبہ تباہی کی طرف جارہاہے، سارے فنڈز نوشہرہ، مردان اور صوابی میں لگائے جارہے ہیں، وزیراعلیٰ منصوبہ بندی کے ساتھ عمران خان کو سائڈ لائن کررہے ہیں جبکہ متعدد صوبائی وزراء بدعنوانیوں میں برابر کے ملوث ہیں، ان اراکین اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ اگر پرویز خٹک وزیراعلیٰ رہے تو اگلے دو سال میں پارٹی ختم ہوجائے گی، کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے ہی صوبائی وزیرمعدنیات ضیاء اللہ آفریدی نے بھی پرویز خٹک پر سنگین الزامات لگائے۔
ضیاء اللہ آفریدی وہ شخصیت ہیں جن کی ماضی میں عمران خان بارہا تعریفیں کرچکے ہیں، ان کے پارٹی میں کردار کے حوالے سے باتیں کرتے رہے ہیں، پرویز خٹک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں لیکن ضیاء اللہ آفریدی کو پارٹی سے نکال دیا گیا، ان تمام اراکین اسمبلی کی ناراضگی اب تک برقرار ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، ایکشن لیا گیا تو اپنے ہی بنائے ہوئے احتساب ادارے کے خلاف لیا گیا، جب احتساب کمیشن نے ضیاء اللہ آفریدی کو گرفتار کیا تو ان کی تعریفیں کی گئیں ، مگر جب احتساب کمیشن نے مبینہ طور پر پرویز خٹک کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے ہی بنائے ہوئے احتساب ایکٹ 2015ء میں ترمیم کی کوشش کی جس پر 10فروری 2016ء کو احتساب کمیشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان نے استعفیٰ دیدیا اور بتایا کہ ضیاء اللہ آفریدی کے خلاف کیس میں پرویز خٹک کے دفتر کو غیرقانونی اقدامات کیلئے استعمال کیا گیا، جنرل حامدکے مطابق وہ بار بار اس معاملہ سے متعلق عمران خان کو بتاتے رہے لیکن کوئی جواب نہیں آیا، ، جنرل حامد جن کی عمران خان بہت تعریفیں کرتے تھے وہ اس کے بعد عہدے سے مستعفی ہوگئے۔