بروس ریڈل پاکستانی امور کے امریکی ماہر ہیں جو چار امریکی صدور کی پاکستان پالیسی کے حوالے سے معاونت کر چکے ہیں۔ امریکی صدور اور حکومتیں کسی ملک کے بارے میں جو پالیسی بناتی ہیں وہ بنیادی طور پر ایسے ہی ماہرین کی نگرانی میں تیار کی جاتی ہیں۔ بروس ریڈل ایک عرصہ تک سی آئی اے سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب وہ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ سو پاکستان جیسا ملک جو امریکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور جسکے اندرونی معاملات میں امریکہ کا عمل دخل بہت زیادہ رہا ہے، کے اندرونی پاورا سٹرکچر اور اقتدار کی جنگ کو ایسے ماہرین بہت قریب سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے چند روز پہلے نواز شریف کی نااہلی پر ایک آرٹیکل لکھا جس میں انہوں نے اسکا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا ہے۔ پاکستان میں آزادی رائے پر جو غیر محسوس قدغنیں ہیں اس وجہ سے اس اہم آرٹیکل پر میڈیا میں بحث مباحثہ نہیں ہو سکا۔
بروس ریڈل کے علاوہ بھی اہم بین الاقوامی اخباروں اور جریدوں نے نواز شریف کی نااہلی پر اداریے اور آرٹیکل لکھے ہیں جنکی ایک واضح اکثریت نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان بین الاقوامی تجزیوں نے اس تاثر کو تقویت بخشی ہے جو پاکستان میں پہلے ہی بہت مضبوط ہو چکا ہے کہ نواز شریف کو نکالنے کیلئے عدلیہ کا کندھا استعمال کیا گیا ہے حالانکہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا کے وہ حصے جو پیشہ ور صحافیوں پر مشتمل ہیں اور جنکی کوئی ساکھ ہے انکی اکثریت بھی نواز شریف کی نااہلی کو مبنی بر انصاف ماننے سے گریزاں ہے۔ سوشل میڈیا اگرچہ تقسیم ہے اور اس تقسیم کی ایک بڑی وجہ اقتدار کی جنگ کے مختلف کھلاڑیوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی کیمپینز ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر بھی خلقِ خدا بہت کچھ کہہ رہی ہے جس کی وجہ سے اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے ہو رہے ہیں۔
میں پچھلے کئی کالمز میں اس خدشے کا اظہار کر چکا ہوں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طریقے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا بلکہ کئی ایک ایسے واضح اشارے مل رہے تھے کہ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور وہی ہوا نواز شریف کو صرف نااہل نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی گئی جو عوام کے سیاسی شعور میں بہتری، پیشہ ور صحافتی حلقوں کی فرض شناسی اور سیاستدانوں کی بلوغت کی وجہ سے بظاہر ناکام ہو چکی ہے۔ اس نااہلی کے فوری بعد مسلم لیگ ن نے جو بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس میں سویلین بالا دستی اور خلیجی تنازعات پر آزاد خارجہ پالیسی کی کوششوں کو اس نااہلی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ میرے جیسے خاکسار جو عوام کی حاکمیت یعنی جمہوریت کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور مختلف قسم کی مقدس گائے بھینسوں کے خود ساختہ حقِ حکمرانی اورعوامی جوابدہی سے تکبرانہ بریت کو ستر سالہ مسائل کی وجہ گردانتے ہیں، عرصے سے منتخب حکومتوں کو سویلین بالا دستی پر سمجھوتہ نہ کرنے اور خارجہ و سیکورٹی پالیسی کو جمہوری کنٹرول میں لینے کی درخواست کرتے رہے ہیں، نواز حکومت کے اس بیانیے سے متفق ہیں۔ بلکہ مجھے تو نواز حکومت سے یہ گلہ ہے کہ اس نے جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے اتنی کوشش نہیں کی جتنی کوشش وہ کر سکتی تھی۔ لیکن مجھے یہ بھی نظر آ رہا ہے جو تھوڑی بہت کوشش اس نے کی اس پربھی اسے عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
نواز شریف نے اپنی نااہلی کے ردِ عمل میں کہا کہ وہ پہلے تو اتنے نظریاتی نہیں تھے لیکن اب وہ ایک نظریاتی شخصیت بن چکے ہیں۔ انکے اقدامات بھی انکی ذات کی اس تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ قومی لیڈروں کی زندگی کا مشاہدہ کریں تو دو طرح کے رجحانات عام ملتے ہیں۔ ایسے لیڈر جو نظریے سے سیاسی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ دنیا داری کی سیاست پر آ جاتے ہیں۔ اور ایسے لیڈر بھی ملتے ہیں جو دنیاداری کی سیاست سے آغاز کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ نظریاتی سیاست کا رُخ کرتے ہیں۔ اقتدار کی حالیہ جنگ میں عمران خان اور نواز شریف کی شکل میں دونوں مثالیں موجود ہیں۔ عمران خان سے گلہ رہے گا کہ انہوں نے نظریاتی سیاست کیوں چھوڑی اور نواز شریف سے گلہ رہے گا کہ انہوں نے جمہوریت کو ابھی پوری طرح اپنا نظریہ کیوں نہیں بنایا، ابھی بھی انکی جمہوریت میں "میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو" کا مظاہرہ نظر آ رہا ہے۔
اگر تو نواز شریف واقعتا جمہوریت کی یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں نہ صرف اپنا بیانیہ واشگاف الفاظ میں عوام کے سامنے رکھنا ہو گا بلکہ اسکے لئے دلیرانہ اقدامات بھی کرنے ہونگے۔ اس جنگ میں اگر انہوں نے عوام کو ساتھ نہ ملایا تو وہ یہ جنگ ہار جائینگے۔ نواز شریف کو چند اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اول، بروس ریڈل اگر پاکستانی سیاست کے امریکی ماہر ہیں تو جاوید ہاشمی اسکے پاکستانی ماہر ہیں۔ سب سے پہلے تو نواز شریف کو جاوید ہاشمی سے معافی تلافی کر کے انہیں باعزت طریقے سے اپنے ساتھ چلانا چاہئے۔ جن حالات میں جاوید ہاشمی نے انہیں چھوڑا تھا، وہ بالکل جائز تھا۔ اور جن حالات میں انہوں نے تحریک انصاف کی پراکسی سیاست کو ٹھوکر ماری، وہ بھی بالکل جائز تھا۔ حالات اور وقت نے دونوں کے راستے ایک دفعہ پھر ملا دیئے ہیں۔ جاوید ہاشمی عرصے سے تن تنہا جمہوریت کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور اب تو ان پر جسمانی حملے بھی کروانے شروع کر دئیے گئے ہیں۔ جس بہادری سے جاوید ہاشمی نے جمہوریت کے خلاف پکنے والی اس سازش کو بے نقاب کیا تھا، اور کر رہے ہیں وہ قابلِ تحسین و قابلِ تقلید ہے۔ دوم، فوجی آمروں کی ایما پرکی گئی آئینی ترامیم اورقابلِ اعتراض حالیہ ترامیم جنہوں نے شہریوں کے بنیادی حقوق کو خطرے میں ڈال دیا ہے، انکو ختم کرنا ہو گا۔ سوم، "اختیارات کی تقسیم" اور "چیک اینڈ بیلنس" جیسے بنیادی جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی روکنے اور عدلیہ میں تعیناتیوں سے لیکر موثر جوابدہی کے نظام کو قائم کرنے کیلئے آئین میں ضروری ترامیم فوری طور پر کرنا ہونگی۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں پر بھی آئینی ترمیم ہونی چاہئے۔ چہارم، میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کی آزادی کیلئے سائبر کرائم ایکٹ جیسے کالے قوانین کو ختم کرنا ہو گا۔ پنجم، شہریوں کو لاپتہ کرنے کو جرم بنا کر اسکی سخت سزا مقرر کرنی ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر مشرف کے سنگین غداری کے مقدمے کو اسکے انجام تک پہنچانے کیلئے اسی سپریم کورٹ سے اسکے ریڈ وارنٹ جاری کروانے اور اسکے ٹرائل کا ٹائم فریم مقرر کروانے کیلئے درخواست دائر کرنی چاہئے۔ جمہوریت کی جنگ کوئی آسان کام نہیں ہے، کیا نواز شریف اس چیلنج کیلئے تیار ہیں؟