• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس رابرٹ جیکسن کا ایک مشہور بیان ہے’’ہم اس لئے حتمی اتھارٹی نہیں کہ ہم بے خطا ہیں، بلکہ ہم بے خطا اس لئے ہیں کیونکہ ہم حتمی اتھارٹی ہیں۔‘‘ گزشتہ جمعہ کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے وزیر ِاعظم کو نااہل قرار دے دیا۔اس اخبار نے دیگر اخبارات کی طرح اس فیصلے کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے ، اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ محترم چیف جسٹس کو اس فیصلے پر نظر ِثانی کے لئے فل کورٹ تشکیل دینی چاہئے ۔
عدالتوں، بشمول سپریم کورٹ کے فیصلوں پر زبان و بیان کا خیال رکھتے ہوئے تنقید کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ جج صاحبا ن انسان ہوتے ہیں، چنانچہ وہ بشری لغزشوں سے مبّرا نہیں۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مقدمہ ہارنے والا فریق فیصلے کی شفافیت کو قبول نہیں کرتا۔ جب سپریم کورٹ نے چیف جسٹس جمالی کی قیادت میں اس انتہائی سیاسی رنگ میں رنگے ہوئے کیس کو ہاتھ میں لیا تو بہت سے حلقوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھاکیونکہ یہ تاثر عام تھا کہ موجودہ اپوزیشن عدالت کے ذریعے منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو منصب سے ہٹانے پر تلی ہوئی ہے ۔ اُس وقت بھی خدشہ محسو س ہورہا تھا کہ جو بھی نتیجہ آیا، اس پر نواز شریف کے حامی یا دوسری صورت میں اُن کے مخالفین کہیں گے کہ اُنکے ساتھ انصاف نہیں ہوا ، جج حضرات اور اُن کے فیصلے پر تنقید کی جائے گی ، نیز عدالت کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جائیں گے ۔ آج یہ خدشہ حقیقت کا روپ دھارچکا ہے، اور کہنا پڑتا ہے کہ جسٹس جمالی اور اُن کے ساتھیوں کا اس کیس کو ہاتھ میں لینے کا فیصلہ درست نہ تھا۔ اُنہیں ایک سیاسی مضمرات کے حامل کیس کی آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سماعت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ سپریم کورٹ بنیادی طور پر اپیل سننے والی حتمی عدالت ہے، اور اسے اپنے اس کردار کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا چاہئے ۔ اور اب تیر کمان سے نکل چکا ہے ۔ بعض مخصوص مبصرین کے تجزیے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ سینئر جج صاحبان، جن میں دو مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب بھی سنبھالیں گے، کو یہ علم ہی نہ تھا کہ قانون کیا ہے ، اور نہ ہی وہ فیصلہ کرتے ہوئے انصاف اور شفافیت سے کام لے پائے ۔ ایسی تنقید بے حد قابل ِ افسوس ناک ہے ، اورایسا کرنا ایک محترم ادارے کا وقار گھٹانے کی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے ۔ آ پ فیصلے ، حتیٰ کہ فیصلہ کرنے کے لئے اپنائے گئے طریق ِ کار تک سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اگر پانچ دیگر جج صاحبان اس کیس کی سماعت کرتے تو اسی مواد سے وہ کچھ اور نتیجہ نکالتے ۔ سپریم کورٹ کے جج بھی بے خطا نہیں ہوتے ، لیکن یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ حتمی ہوتے ہیں۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ کیا ایک فل کورٹ یا لارجر بنچ فیصلے پر نظر ِثانی کرسکتا ہے ؟عام طور پر نظر ِثانی کی درخواستوں کی سماعت فیصلہ سنانے والا بنچ ہی کرتا ہے ، اور سپریم کورٹ کی دیرینہ روایت یہی رہی ہے ۔ یہ معمول سپریم کورٹ رولز کے آرڈر نمبر XXVI کے قاعدے نمبر 8کے مطابق ہے ، جو کہتا ہے ’’سماعت کے لئےمنظور کی جانے والی نظر ِثانی کی درخواست اُسی بنچ کے سامنے پیش کی جائے گی جس نے فیصلہ سنایا تھا‘‘۔بدقسمتی سے تلور کے شکار کے کیس میں سپریم کورٹ نے اس معمول سے انحراف کیا ۔ اُس کیس میں تین رکنی بنچ کے فیصلے پر نظر ِثانی کی اپیل کی سماعت ایک لارجر پانچ رکنی بنچ نے کی اور 4-1 کے اکثریتی فیصلے سے تین رکنی بنچ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تلور کے شکار کی اجازت دے دی۔ اس سے پہلے تین رکنی بنچ تلور کے شکار پر پابندی کا فیصلہ سنا چکا تھا ۔ فیصلہ سنانے والے تین رکنی بنچ کاکوئی جج پانچ رکنی لارجر بنچ میں شامل نہ تھا ۔ سپریم کورٹ کا تشکیل دیا ہوا تین رکنی یا لارجر بنچ ہی حتمی فیصلہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے ۔ اگر ایک مختلف لارجر بنچ کو اپیل کی سماعت اور پہلے فیصلے کو تبدیل کرنے کی اجازت دے دی جائے تو پھر اس پر بھی اپیل کا حق ہوتاہے ۔اور بات اصولی طور پر مناسب نہیں ، جیسا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے تلور شکار کیس میں اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہاکہ ’’اس معمول سےسپریم کورٹ کے فیصلوں کی اتھارٹی اور قانونی حتمی پن کو نقصان پہنچے گا۔ ‘‘اگراب چیف جسٹس سابق وزیر ِاعظم کی نظر ِثانی کی اپیل پر لارجر یا فل کورٹ بنچ تشکیل دیتے ہیںتو پھر آئندہ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ حتمی تصورنہیں ہوگا جب تک فل کورٹ اس کی سماعت نہیں کرتی ۔ اور یہ معمول عدالت کی اتھارٹی کو دھندلا دے گا، نیز اس کی وجہ سے پانچوں جج صاحبان(جن میں سے دو چیف جسٹس بننے والے ہیں) کی اتھارٹی پر بھی حرف آئے گا۔ اگر اصل فیصلہ سنانے والے پانچ جج دستیاب ہوں تو نظر ِثانی کی اپیل اُنہیں ہی سننی چاہئے ۔ اگر وہ دستیاب نہ ہوں تو پھر اصل بنچ کو ہی برقرار رکھا جائے اور پنچ کا سائز نہ بڑھایا جائے ۔ نظر ِثانی کی اپیل میں فیصلہ سنانے والے جج صاحبان سے دوبارہ غورکرنے کی استدعا کی جاتی ہے، یہ کیس کی تازہ سماعت نہیں ہوتی ۔ نظر ِثانی کی اپیل صرف اُس صورت میں کامیاب ہوتی ہے جب فیصلے میں کوئی سنگین غلطی سامنے آئے ۔ کیا اس کیس میں ایسی کوئی غلطی موجود ہے ؟وزیر ِاعظم کو نااہل قرار دینے کی وجہ اُس تنخواہ کا ظاہر نہ کرناتھا جو اُنھوں نے وصول تو نہ کی لیکن وصول کرسکتے تھے ، اس لئے اُس تنخواہ کو اُن کا اثاثہ قرار دیا گیا۔ اس پر کچھ ماہرین نے نشاندہی کی کہ چونکہ سابق وزیر اعظم نے ارادۃً ایسا نہ کیا اور نہ ہی اُنھوںنے دھوکہ دیا ، لہٰذا یہ کوتاہی بددیانتی کے زمرے میں نہیں آتی ۔ اُن کے وکلا نے ملازمت کے معاہدے کی تردید نہیں کی تھی ۔ درحقیقت اُنھوںنے اس کے وجود کو تسلیم کیا اور کہا کہ معاہدے کے باوجود اُنھوںنے تنخواہ وصول نہیں کی تھی ۔ اس کا مطلب ہے کہ سابق وزیر ِاعظم اس تنخواہ سے واقف تھے ۔ چنانچہ جب اُنھوںنے انتخابات لڑنے کے لئے اپنے کاغذات جمع کرائے اور حلفاً کہا کہ اُنھوںنے تمام اثاثے ظاہر کردئیے ہیں تو اُن کا تحریری بیان درست نہ تھا ۔ کیا غلط بیانی نااہلیت کا جواز ہوسکتا ہے ؟یقیناً یہ ایک عوامی عہدہ رکھنے والے کی طرف سے کسی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ظاہر نہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس سے بطور عوامی عہدیدار فرائض او ر ذاتی مفاد کے درمیان ٹکرائو پید اہوتا ہے ۔ قارئین ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ کس طرح وزیر ِاعظم کے حامی سازش کی تھیوری پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیر ِاعظم کو قطر اور یمن کے معاملے پر ایک مخصوص موقف اختیار کرنے پر سزا دی گئی ۔ کیا افرادکے قابل ِوصول اثاثے اہمیت رکھتے ہیں؟اس پر مختلف موقف سامنے آسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ٹیکس یا اکائونٹنگ کی غرض سے اثاثے کی وضع کی گئی تعریف کا اطلاق عوامی عہدیداروں کے اثاثوں پر ہو۔ ایسا کوئی کیس نہیں جہاں قابل ِوصول کی ادائیگی کا انحصار کسی غیر متعلقہ تیسرے فریق پر ہو۔
وزیر ِاعظم یواے ای میں آزادانہ سفر کرنا چاہتے تھے ، چنانچہ اُنھوںنے ملازمت کے ایک معاہدے (اقامے ) پر دستخط کردئیے ۔ اس طرح وہ ایک کمپنی کے چیئرمین بن گئے جس کو اُنہیں تنخواہ ادا کرنی تھی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فرد کو نااہل قرار دیا ہے ۔ اس نے حکم دیا ہے کہ نظام کو چلتا رہنا چاہئے ۔ عجیب بات ہے کہ جوافراد یہ کہتے تھے کہ ہمیں اداروں کی ترقی پر توجہ دینی چاہئے ، وہ ایک فرد کو ملنے والی سزا پر خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ قانون نے قدرے سختی (نہ کہ انصافی) کی، لیکن مت بھولیں کہ ماضی میں وہ اسی عدالت کی ایسی نرمی سے استفادہ کرچکے ہیں جس پر بعد میں بہت سے سوالات اٹھے تھے ۔ جب آپ کچھ جیتتے ہیں تو آپ کچھ ہارتے بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما جو آج خوشی سے شادیانے بجارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کل وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوں۔ضروری ہے کہ ہم اس فیصلے کو حتمی مان لیں اور آگے بڑھیں۔
(صاحبِ مضمون ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور بیرسٹر ایٹ لاء ہیں)

تازہ ترین