پاکستان کے سابق ’’غیر آئینی‘‘ صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ملک کے سیاسی باطن میں موجود طاقتور ترین عنصر کے سبب پاکستان سے ’’بھاگ جانے‘‘ میں کامیاب ہوئے، دلائل کی کہانی محض تاریخ ہے، تاریخ کی وہ جہت جو طاقتوروں کے قلم سے لکھی اور کمزوروں کے عمل سے تسلیم کی جاتی ہے۔
یہ جنرل (ر) پرویز مشرف وطن واپسی سے کلیتہً خوف زدہ ہیں۔ لولی لنگڑی آئینی جمہوری حکومت بھی ان کے گلے کا طوق بن سکتی ہے۔ پاکستان میں اپنی موجودگی کے دورانیے میں تمام تر تحفظ کے باوجود ایک آدھ دفعہ عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کا چہرہ اپنے سالوں میں پوشیدہ خوف زدہ پھڑپھڑاہٹ پر قابو نہیں پا سکا تھا، لمحہ فرار وہ جسمانی لمحہ ہے جب انہیں قوت گویائی ملی اور لندن پہنچنے کے بعد انہوں نے زندگی کے رازوں پر سے پردہ اٹھانے کی عیاشی شروع کی، نجی ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے بہرحال مواد کی ضرورت ہوتی ہے، اگر دستیاب کردار کے ساتھ واقعات بھی منسوب ہوں، چسکا بھی فراہم کیا جا سکے، کسی عہدے وغیرہ کی چمچماہٹ کا تڑکا بھی لگا ہوا ہو، کوئی طاقتور ترین گروہ پشت پر ہو، کسی قید و بند اور بے بسی کے اندیشے ختم ہو چکے ہوں، پھر زبان درازیوں اور فلسفہ طرازیوں کی اڑانیں بھرنے سے بڑا تعیش کیا ہو سکتا ہے؟ اور یہ تعیش ان دنوں (ر) جنرل کا اوڑھنا بچھونا ہے! ان کا سیاسی مستقبل، ہر امکانی فارمولے کی رو سے چونکہ سو فیصد تاریک ہے، اس لئے انہیں وطن عزیز میں تاریکی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا چنانچہ ان کی سوچوں میں چمگادڑ کی کیفیت کا راج ہے!
جنرل (ر) پرویز مشرف نے چند روز قبل بی بی سی لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔
’’ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ ملک کو سنوارا اور سویلینز نے پاکستان کو بگاڑا‘‘، پرویز مشرف نے ناگزیر ضرورت کے تحت آئین کو بھی وقتی طور پر ایک طرف رکھ دینے کی گنجائش بیان کی۔ جنرل اسلم بیگ (ر) نے مشرف کے نظریات کی تردید کی، حساس قلمکاروں نے پاکستان کی حکومتوں کو ہتھیانے والے جرنیلوں یا عناصر کو مخاطب کرتے ہوئے اس قسم کے جن جذبات کا اظہار کیا ان کے مطابق ’’میں مائی باپ! میں جب ووٹ دینے جاتا ہوں تو ووٹ پاس کرنے والے میری یہ شناخت دیکھ کر مجھے ووٹ کی پرچی دیتے ہیں جس پر میں مہر لگاتا ہوں، اپنی مرضی کے نشان پر، جی مائی باپ! اپنی مرضی کے نشان پر، میری عاجزی والی بس اتنی سی گزارش ہے مائی باپ کہ بس ذرا سا بوٹ اوپر اٹھایئے، میری ذاتی شناخت آپ کےپائوں کے نیچے آ گئی ہے، الیکشن بہت قریب ہے مائی باپ، یہ ووٹ اپنی شناخت کے ساتھ مجھے پھر ووٹوں والے ڈبے میں ڈالنا ہے، مجھے اپنی مرضی کا بندہ منتخب کرنا ہے، مجھے پہلے بندے سے اپنا حساب کتاب خود کرنا ہے، مجھے خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گریبان پکڑنا ہے۔ مجھے اپنا حق خود مانگنا ہے۔ پہلے اس پر ثابت کرنا ہے کہ دیکھ اصل طاقت میں ہوں، میں، پاکستان کی زمین میری ہے، اس لئے پاکستان میرے لئے ہے، اس لئے فیصلہ بھی میرا ہے، بس مائی باپ! تھوڑا سا پائوں اوپر کیجئے تاکہ میں اپنا ووٹ اٹھا لوں، میرا ووٹ مَسل گیا تو میری شناخت مر جائے گی، مائی باپ! مری ہوئی شناخت کے ساتھ بندہ اپنے باپ کا ہی نہیں رہتا۔ ملک کا کیا رہے گا۔ فقط۔۔ عوام!‘‘
بس یہی جھگڑا ہے، آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کا جھگڑا، قیام پاکستان کے بعد ایک مائنڈ سیٹ پہلے سے موجود تھا، یہ مائنڈ سیٹ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء لاحق، پرویز مشرف اور طاقتور ترین ادارے کے مختلف شعبوں میں موجود بعض عناصر کی انفرادیت کا ترجمان تھا اور ہے، اسی مائنڈ سیٹ کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوا، ملک مذہبی خون ریزیوں کی آماجگاہ بنا، ملک غیر سیاسی مسلح اداکاروں کی محفوظ ترین چراگاہ قرار پایا، اسی مائنڈ سیٹ نے کبھی مائنس ون، کبھی مائنس تھری، کبھی بنگلہ دیش ماڈل، کبھی قومی حکومت کے جھمیلے کھڑے کئے، پاکستان کے قومی اور جغرافیائی ماحول کو جان لیوا حد تک شکست و ریخت کا شکار کر دیا۔
پاکستان کی قومی تاریخ میں ان چاروں فوجی حکمرانوں کو قبول نہیں کیا گیا، پاکستانی عوام نے اپنے اجتماعی فہم کی عدالت میں انہیں ’’غاصب‘‘ ڈیکلیئر کیا، تاریخ ان کا بری طرح حساب لے رہی ہے، جیسا کہ خود پرویز مشرف پاکستان کی عوامی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں، انہیں قوم کے سامنے جوابدہی کرنا ہے، یہ ڈر ہی ان کی ذہنی ابتریوں کی بنیاد ہے، مزید یہ کہ ’’حب الوطنی‘‘ کا سرٹیفکیٹ ایسے ’’عناصر‘‘ نے اپنے پاس رکھا ہوتا ہے، ایسے ’’محب وطنوں‘‘کی حب الوطنی، کے بارے میں سیموئیل جانسن کا ایک بہت ہی سخت قول ہے جسے ذاتی بزدلی کے باعث نہیں لکھا جا رہا۔
جنرل ’’ر‘‘ پرویز مشرف کے افکار و خیالات نہایت مجرمانہ فکر کی غمازی کرتے ہیں، وہ ایک غیر ذمہ دار غاصب حکمران تھے، وہ ایک غیر ذمہ دار غاصب علامت ہیں، وہ پاکستان میں ریاستی اداروں کی جسمانی بالادستی کے باعث ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوئے، وہ مستقبل میں، سو فیصد تک یقینی امکانات ہیں، پاکستان کی دھرتی پر شاید قدم نہ رکھ سکیں اور اگر کہیں یہ انہونی ہو بھی گئی تب ان کے ان ریمارکس اور گزرے ماضی کے نتیجے میں پاکستانی عوام کا اجتماعی ضمیر انہیں اپنے ووٹ کے باکس میں دفن کر دے گا۔
--o--
اب ایک ورکنگ جرنلسٹ اور پنجابی زبان و ادب کے معروف دانشور تنویر ظہور کی خود نوشت کا ذکر کرتے ہیں، اپنی ذاتی صحافی و ادبی کہانی کو تنویر ظہور نے ’’میرا عہد، جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ تنویر کا کہنا ہے۔ میرے بعض احباب نے مجھے سوانح حیات لکھنے کا مشورہ دیا۔ میرے دل و دماغ نے اس کی کبھی تائید نہیں کی، میں نے سوچا میری سوانح حیات سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک عام سا قلندر شخص ہوں، کوئی ایسے کارہائے نمایاں انجام نہیں دیئے جنہیں فخر سے بیان کر سکوں۔‘‘ استاد گرامی قدر ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم نے اپنے مضامین تنقیدی مضامین کے مجموعے میں کسی جگہ لکھا ہے۔ ’’سوانح عمریاں مجھے پسند ہیں، میں یہی پڑھتا ہوں ناولوں کا مطالعہ نہیں کرتا‘‘، اس باب میں انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا جس سے یقیناً متعدد احباب فکر و نظر کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے تاہم سوانح عمری کی وقعت اور شدت اپنی جگہ رہتی ہے۔
’’کار ہائے نمایاں‘‘ بھی MATTER کرتے ہیں، بہرحال بہتر انسان ہونے کا حاصل اصل کار نمایاں ہے، تنویر ظہور اس حوالے سے خود کو دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں، ان کی سوانح حیات البتہ سادہ اسلوب تحریر اور واقعات و اپروچ کے قدرتی بہائو میں قاری کے لئے ایک مثبت تاثر فراہم کرتی اور زندگی کے رویوں کی ایک متوازن اور محبت آمیز تشریح سامنے لاتی ہے۔ پہلی تین دہائیوں میں سیاستدانوں، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی سوانح ہائے حیات بہت بڑی تعداد میں اشاعت پذیر ہوئی ہیں، ان میں شاید سب ہی اہلیت کی حامل ہیں، سب ہی پاکستان کی سینئر اور موجودہ نسل کے لئے فکری غذا اور تاریخی تسلسل کی معلومات کا خزانہ فراہم کرتی ہیں، تنویر ظہور ایک ورکنگ جرنلسٹ اور پنجابی زبان و ادب کے معروف دانشور ہونے کے ناتے اسی صف میں کھڑے ہیں، کالم نگار کے نزدیک سوانح نگار کی کہانی میں ابھرتی اس کی شخصیت ہی اس کا مقام و مرتبہ کا تعین کرتی ہے، آگے پیچھے کا میرٹ کوئی میرٹ نہیں!
مثلاً تنویر ظہور کی خود نوشت بہ عنوان ’’میرا عہد۔ جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ میں آپ جب صادقین، جون ایلیا، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ڈاکٹر سید نذیر احمد، پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور، مولانا غلام رشد، منو بھائی، اسلم کمال، غلام احمد پرویز، مولانا کوثر نیازی، مرشدی عطاء الحق قاسمی اور سعید آسی کا تذکرہ پڑھتے ہیں یا جب آپ ’’خالی قبریں‘‘، ’’بابے اور بابوں سے محبت کرنے والے‘‘، روحانی، معالج، عامل اور جنابت جیسے ابواب آپ کی نظر سے گزرتے ہیں، آپ سوانح نگار کے ساتھ مسلسل ذہنی وابستگی سے جڑا ہوا خط اٹھاتے ہیں، وہ ہمارے ادارے ’’جنگ‘‘ کے رفیق سفر رہے، یہیں سے ریٹائر ہوئے۔