• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل پرویز مشرف کا یہ دعویٰ کہ فوجی ڈکٹیٹر ملکی نظام کو درست کرتے ہیں اور سویلین خراب کرتے ہیں معاشی ترقی کی رفتار کی حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن معاشرے کے ارتقا کا یہ محض ایک پہلو ہے۔ مجموعی طور پر متوازن معاشرتی ترقی (صرف معاشی نہیں) کے لئے جمہوری نظام نسبتاً بہتر ثابت ہوئے ہیں۔عالمی سطح پر معاشی ترقی تو جمہوری معاشروں میں بھی ہوئی ہے اور غیر جمہوری نظاموں میں بھی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسا نظام دیر پا اور انسان کی بنیادی ضرورتوں سے قریب تر ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ مخصوص عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان میں فوجی حکومتوں کے دور میں معاشی ترقی تیز تر ہوئی ہے لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ ترقی ٹھوس بنیادوں پر قائم نہیں تھی۔ مزید برآں ان ادوار میں ایسے مسائل نے جنم لیا جو ملک و قوم کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئے۔
غالب امکان یہ ہے کہ جنرل مشرف کے ذہن میں صرف معاشی ترقی کی رفتار کا محدود اشاریہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ بدیہی طور پر درست بھی ہوں لیکن معاشرے کی ترقی کو سات سال کے مختصر دورانیے میں محض ایک اشاریے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس سلسلے میں بھی اگر جانچ پڑتال کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کے دور کے پہلے دو سالوں یعنی 1999سے لے کر 2001 تک معاشی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ترقی کی رفتار اس وقت تیز ہوئی جب امریکہ نے نو گیارہ کے سانحے کے بعد پاکستان کی بھرپور معاشی مدد کی۔ بڑی مقدار میں بیرونی امداد اور ملکی قرضوں کے موخر ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ترقی کی رفتار تیز ہو گئی لیکن اس ترقی کی سماجی قیمت بہت بھاری تھی۔ اسی دور میں دہشت گردی اپنی انتہا کو پہنچی، کراچی شہر کی بربادی ہوئی اور ملک دنیا بھر میں اتنا بد نام ہوا کہ کسی کھیل کی ٹیم نے پاکستان میں قدم نہیں رکھا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، معاشی ترقی کے لئے جمہوریت لازمی شرط نہیں ہے۔ باوجود غیر جمہوری نظام کے اس وقت دنیا میں چین ریکارڈ معاشی ترقی کرکے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ ویت نام بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ اس سے پہلے جنوبی کوریا اور جاپان نے بھی غیر جمہوری ادوار میں معاشی ترقی کی بنیاد قائم کی تھی۔ معاشی ترقی تو مشرق وسطی کے ان ممالک میں بھی ہوئی ہے جن میں ملوک و شیوخ حکومت کر رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں غالباً ہندوستان جیسے کم ممالک ہیں جنہوں نے جمہوری ہوتے ہوئے معاشی ترقی کی ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بد قسمتی سے جمہوریت اور معاشی ترقی لازم و ملزوم نہیں ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک کی مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ آخر کار پائیدار معاشی ترقی اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیا چین جیسے غیر جمہوری اور ہندوستان جیسے جمہوری نظاموں کی معاشی ترقی میں کوئی قدر مشترک ہے؟ ہمارے خیال میں ترقی کرنے والے اکثر ممالک میں سب سے پہلے زرعی اصلاحات کی گئیں اور تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ چین، جاپان، جنوبی کوریااور ہندوستان جیسے ممالک میں زرعی اصلاحات کی وجہ سے پرانے معاشی نظام کا جلد خاتمہ ہوا اور نئے معاشی نظاموں نے مضبوط جڑیں پکڑیں۔ پاکستان اور جنوبی کوریا میں صرف سیاسی نظاموں کا ہی فرق نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جنوبی کوریا نے بہت آغاز میں ہی زرعی اصلاحات نافذ کردیں اور سماجی سہولتیں فراہم کرنا شروع کردیں۔ ہندوستان نے بھی آزادی کے چند سال کے بعد زرعی اصلاحات کے ذریعے پرانی جاگیرداری کا خاتمہ کردیا۔ پاکستان میں حکمرانوں نے نہ صرف جاگیرداری کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ درمیانے طبقے سے آنے والے آمر ’’زمیندار‘‘ طبقے میں شامل ہو گئے۔
پاکستان میںجمہوری و آمرانہ ادوارمیں ایک فطری معاشی ترقی ہوتی رہی ہے اور آج کا پاکستان ستر سال پہلے کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان میں بظاہر آمرانہ ادوار میں معاشی ترقی کی رفتار نسبتاً بہتر تھی لیکن انہی سالوں میں پاکستان میں ایسے مسائل پیدا ہوئے جو اس کے لئے زہر قاتل تھے۔ سب سے پہلے آمر ایوب خان کے دور میں معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوئی لیکن 1965کی جنگ نے اس کو ملیا میٹ کر دیا۔ امریکی امداد سے معاشی اشاریے تو بہتر ہو گئے لیکن ملک کی خارجہ پالیسی کو رہن رکھ دیا گیا اور امریکیوں کو بڈھ بیر جیسے فضائی اڈے دے کر ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا۔ نہ صرف زرعی اصلاحات نہ کی گئیں بلکہ مخصوص طبقوں اور علاقوں میں ارتکاز دولت کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک نے جنم لیا۔ مغربی پاکستان میں بھی عوام ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں پیپلز پارٹی کی رہنمائی میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان کا دور آیا جو ملک کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا۔ یحییٰ خان کے دور کے خاتمے کے وقت پاکستان دو لخت ہو چکا تھا، معاشی بحران بہت گہرا ہو گیا تھا اور ملک نا دہندگی کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ایوب خان کی نام نہاد تیز تر معاشی ترقی کا یہ انجام تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے ملک کو افغان جنگ میں جھونک دیا۔ اگرچہ ضیاء الحق پر امریکہ اور مشرق وسطی سے ڈالروں کی بارش کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی لیکن ملک میں طوائف الملوکی کا آغاز ہو گیا۔ مذہبی منافرت، فرقہ پرستی، لسانی عصبیت اور تشدد نے معاشرے کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کا کلچر عام ہو گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں جس معاشرتی زبوں حالی کا دور شروع ہوا اس کی سزا آج تک بھگتی جا رہی ہے۔ اگرچہ معاشی نظام کی تبدیلی بھی سماجی بحران کی وجہ بنی لیکن یہی وہ دور تھا جب زیادہ مضبوط سیاسی نظاموں والے ممالک (چین، ہندوستان) معاشی ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے بہت آگے نکل گئے۔
پاکستان میں نوے کی دہائی میں بظاہر سویلین حکومتیں قائم رہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کبھی بھی آزادانہ طریقے سے کام نہیں کرنے دیا پھر بھی کسی نہ کسی طرح سے معاشی ترقی جاری رہی۔جنرل مشرف کے فوجی دور میں ایک مرتبہ پھر سے امریکہ اور مشرق وسطی سے ڈالروں کی بارش ہوئی جس سے ملک کے مخصوص شعبوں میں ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ جنرل مشرف کے دور میں صارفین کو قرضوں کی سہولتیں مہیا کرکے معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھایا گیا لیکن انہوں نے صنعتی انفراسٹرکچر کو سرے سے نظر انداز کردیا:بجلی استعمال کرنے والی اشیاء تو عوام کو فراہم کردیں لیکن بجلی کی پیداوار میں اضافے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس دور میں جہادی کلچر پروان چڑھا جس میں ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں گئیں۔ مجموعی طور پر جنرل مشرف کے دور میں پاکستان، باوجود معاشی ترقی کے میدان کارزار بنا رہا۔
المختصر جنرل مشرف کا دور معاشی اشاریوں کے پہلو سے مناسب تھا لیکن یہ معاشی ترقی پائیدار نہیں تھی۔ مزید برآں ملک میں افراتفری کا سماں تھا جو سماجی بربادی کا آئینہ دار تھا۔

تازہ ترین