• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جھوٹ کی لعنت...سحر ہونے تک … ڈاکٹر عبدالقدیر خان

سچ ، جھوٹ بظاہر کتنی چھوٹی بات معلوم ہوتی ہیں اور بچہ شعور حاصل کرتے ہی انکے معنی اور مطلب سمجھنے لگتا ہے۔ ابتدائی سبق بھی یہی پڑھتے آئے ہیں ”سچ بولو ، سچ بولو ، ہمیشہ سچ بولو۔ ہے بھلے مانسوں کا پیشہ سچ“یعنی بھلائی کی ایک شرط سچ ہے ، ظاہر ہے اسکا متضاد جھوٹ بھلائی کا نہیں برائی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹ کے لفظی معنی یہ ہیں کہ اپنے ایمان، اعتقاداور علم یقین کے بر خلاف بات کرنا۔
سچ کی قدر دانی اور جھوٹ کی برائی سیدھے سادھے کم تعلیم یافتہ لوگوں میں ہمیشہ سے پائی جاتی ہے جسکا ثبو ت پرانی کہاوتیں، لوک گیت اور مقولے ہیں۔ مثلاََ ”سانچ کو آنچ نہیں“ ”سچے کا بول بالا جھوٹے کا منہ کالا“ ۔ جھوٹ بولے کوا کاٹے، قرآن حکیم بھلا اس ہدایت کے بغیر کس طرح رہتا اور ارشاد خداوندی ہے، سورة آل عمران آیت 61”لَعنَتَ اللہ عَلیَ الکٰذِبِین“جھوٹے پر اللہ کی لعنت سے بڑھ کر کیا ہدایت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ رب العزت نے سورة شوریٰ ، سورة نمل، سورة طٰہ، سورة طور،سورة صف، سورة منافقون، سورة رعد، سورة البقرہ، سورة زخوف، سورة التوبہ، اور سورة مُرسلٰت میں تو دس مرتبہ جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے۔ سورة البقرہ میں تو جھوٹ نہ بولنے اور وعدوں کی پاسداری کا حکم فرمایا ہے لیکن ہم جب آج اپنے اعلیٰ عہدیداروں اور حکمرانوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے اقوال و اعمال کو دیکھتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے، تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو نہ ہی اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور نہ ہی اس کے عذاب کا حالانکہ دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والوں اور وعدہ خلافی کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دے کر ذلیل و خوار کر دیا۔ عوامی نمائندے اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں اور ان پر عوام کا اعتماد اللہ کی امانت ہے۔ اگر عوامی نمائندے یا اہل اقتدار جھوٹ بولیں تو ان پر یقینا ہمارے ایمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی لعنت اور عتاب نازل ہو گا۔ یہ کہنا کہ چونکہ بھولے بھالے عوام نے ان پر بھروسہ کر کے اقتدار پر بٹھا دیا، ان کو بے ایمانی، رشوت ستانی اور جھوٹ بولنے کی چھٹی مل گئی ہے ، یہ عوام کے شعور کی توہین ہے۔ ان کے شعور کی یہ توہین نہیں ہے کہ راشیوں ، چوروں اور جھوٹے صاحب اقتدار لوگوں کا کچا چٹھا کھولا جائے۔ ان غلط کاموں اور جرائم سے ان کو کبھی بھی کوئی مستثنیٰ قرار نہیں دے سکتا۔
فارسی بھلا اس انسانی تقاضہ سے کیسے بے نیاز رہتی، اس نے یہ بھی بتلا دیا” دردغ گورا حافظہ نہ باشد“ یعنی جھوٹے کو اپنی جھوٹی بات یاد نہیں رہتی مگر اسی کے ساتھ ایک موقع پر اس کی اجازت بھی دی گئی ہے یعنی ”دردغ مصلحت آمیز بہ ازراستی فتنہ انگیز“ یعنی ایسا سچ جس سے فتنہ برپا ہونے کا اندیشہ ہو اس کے مقابلے میں رفع شر کے لئے جھوٹ کو بہتر مانا گیا ہے جیسے کسی سے پوچھا جائے کیا فلاں شخص مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا ، جواب میں دوسرا آدمی کہہ دے مجھے نہیں معلوم یا میرے سامنے تمھیں برا نہیں کہا تا کہ دونوں کے درمیان جھگڑا نہ بڑھے مگر اسے مستقل جواز بنا کر جھوٹ کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صداقت یعنی سچائی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ حلفیہ بیان عدالتی کاروائی کا ضروری جز ہوتا ہے دردغ حلفی ایک قابل سز ا جرم ہے۔
اسلامی نظام میں جھوٹے الزام یعنی بہتان کی سز ا کوڑوں کی تھی ، یہ سختی جھوٹ کو روکنے کے لئے تھی۔ جھوٹ جیسی بری لعنت اور خرابی ہمارے معاشرہ میں داخل ہو چکی ہے اور وہ بھی نئے نئے روپ میں ۔ کئی حلقوں نے تو اسے برائی سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے اور اسے نئے نئے نام دے رکھے ہیں۔ ادبی دنیا میں لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اس کا سہار ا لیا جاتا ہے۔ لطیفے ، قصیدے، افسانے، غزلیں حقائق پر مبنی نہیں ہوتے ۔ شاعری میں بھی مبالغہ آرائی غلط بیانی کا ایک جز ہے۔
جھوٹ کی سب سے زیادہ پھلنے پھولنے کی جگہ سیا ست ہے۔ سیاست میں بیانا ت وعدے اور اعلانات مکمل طور پر صداقت پر مبنی نہیں ہوتے ۔ الیکشن منشور خواہ وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں ، اچھے اور مفید کام کرنے کے وعدوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں اور انتخاب کے بعد کامیاب امیدواران ان وعدوں پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ ملکی سیاست سے زیادہ بین الاقوامی سیاست میں جھوٹ کا بول بالا ہے ، ایک ملک دوسرے پر خطر ناک بم بنانے کا الزام لگاتا ہے جب کہ وہ ملک اس کا انکار یا اسے پر امن مقاصد کے لئے تیار کرنے کا اظہار کرتا ہے۔ عراق پر خطر ناک بمبوں کے بنانے کے الزامات تھے، جنگ چھڑی، عراق کو شکست ہوئی تو معلوم ہو ا کہ ان خطر ناک بموں کا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ بعد میں خفیہ ایجنسیوں کی غلطی بتائی گئی۔ اس نام بنام غلطی میں کتنی جانیں ضائع ہوئیں۔ صدام حسین کو پھانسی ہوئی پھر بھی غیر ملکی تسلط آج بھی جاری ہے ، کوئی ملک جب اپنے مفاد کے لئے کسی دوسرے ملک پر جب جھوٹا الزام لگاتا ہے تو وہاں کے ذمہ دار لوگ بھی یا تو الزام لگانے میں شامل ہو جاتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ اس جھوٹی الزام تراشی میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں شامل ہیں اور ان بڑی طاقتوں کی نقل میں درمیانے اور چھوٹے ممالک بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ بد قسمتی سے دنیا میں جمہوریت و سچائی کے نام نہاد و علمدار امریکہ اور انگلستان کی تاریخ جھوٹ سے پُر ہے۔
نائن الیون کا ہنگامہ جب ساری دنیا میں زور پکڑ چکا تھا تو ہندوستان نے پاکستان کو مورد الزام قرار دینے کے لئے پارلیمنٹ پر حملہ کی کہانی بنائی ۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ اس نام نہاد حملہ کے وقت کوئی بھی ذمہ دار وزیر پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھا نہ ہی پارلیمنٹ کے کسی ممبر کو کوئی نقصان پہنچا ، بہر حال یہی رٹ لگائی جاتی رہی کہ حملہ آور پاکستانی تھے۔ کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور سکیورٹی کی موجودگی میں اس حساس ادارہ میں کیسے داخل ہوئے ؟ یہ کہانی بنانے والوں سے پوچھنا چاہئے۔ وہ نام نہاد حملہ آور کہاں سے لا کر گزارے گئے، مارے گئے؟ اسی طرح ہندوستان کا الزام کہ ہم در اندازی کرتے ہیں جھوٹ ہے۔ لاکھوں فوجی سرحد پر تعینات ہیں پھر ان در اندازوں کو روکنا یا مارنا اگر لاکھوں فوجیوں کے بس کا کام نہیں تو پھر فوج لگانے سے کیا فائدہ؟
پچھلے سال بمبئی حملے کا الزام پاکستانی حملہ آوروں پر لگایا گیا کہ انہوں نے پانی کے راستے بمبئی میں داخل ہو کر تخریبی کاروائی کی۔ مگر ہم سب کو یہ علم ہے کہ آئے دن غریب مچھیروں کو جو سمندر میں ملکی حدود کا اندازہ نہیں کر سکتے انہیں گرفتار کرنے کے لئے نیوی کے جہاز ، ہیلی کاپٹر آجا تے ہیں ، پھر یہ حملہ آور کیوں نہیں روکے گئے، اس وقت نیوی فورسز اور سکیورٹی فورسز کیا کر رہیں تھیں؟
ایک وکیل نے انکشاف کیا تھا کہ اجمل قصاب بمبئی حملہ سے کئی ماہ قبل تجارت کے سلسلہ میں نیپال گیا تھا جہاں سے وہ بدنامِ زمانہ را کے ہاتھوں پکڑا گیا اور بمبئی حملہ میں ملز م کے کردار کے طور پر نمایاں ہوا۔ پاکستانی نوجوان غیر قانونی طریقوں سے مقدر آزمائی کے لئے باہر جاتے ہیں جہاں کئی پکڑے جاتے ہیں اور پھر ساری دنیا کے سامنے پاکستانی حملہ آو ر بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ بمبئی حملوں میں پاکستانی آسانی سے بمبئی میں داخل ہوئے ، وہ عمارتوں کے ایک ایک حصے سے بخوبی واقف تھے اور ان کے مقابلہ میں کمانڈوز آئے مگر کسی ایک کو بھی زند ہ گرفتار نہ کر سکے۔
گرفتار ہوا تو ایک فرضی نام نہاد حملہ آور اجمل قصاب جو پہلے سے ہی لاپتہ تھا۔ ہمارے حکومت نے نااہلی سے ان الزامات کی صحیح تر دید نہیں کی بلکہ بھونڈی صفائی کی کو شش میں لگ گئی ، سب جانتے ہیں کہ یہ سب کاروبار مذاکرات نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ کسی بھی ملک پر اندرونی حملہ کا ذمہ دار کوئی دوسرا ملک کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی حملہ آور آتا ہے تو اسے روکا جائے، گرفتار کیا جائے یا اگر مزاحمت کرے تو اسے ما ر دیا جائے۔بین الاقوامی مظلومیت اس طرح حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف مغربی طاقتوں کے مذاکرات کے اصرار پر ٹال مٹول کرنے کے لئے بہانہ سازی ہے اور ہمارے حکمران ہندوستان سے جامع مذاکرات کی دن رات بھیک مانگتے رہتے ہیں،کیا بے غیرتی نہیں ہے؟
سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ خود ہندوستانی گورنمنٹ افسران کی سازش تھی ، جب ایک ایماندار افسر کرکرے نے یہ راز فاش کر دیا تو بمبئی حملہ میں اس کو بھی مار دیا گیا۔اس احتجاج میں قدیمی ایماندار کانگریسی اے آر اَنٹولے نے استعفیٰ بھی دیدیا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی میں حکمران جماعت کانگریس اور اپوزیشن پارٹی بی جے پی دونوں برابر کے شریک ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام کی سازش کی تحقیقات سترہ سال میں مکمل ہوئیں مگر ابھی بھی ایکشن باقی ہے۔ بی جے پی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا مگر کسی لیڈر کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔
ہندوستان کی حکومت کا سار ا ڈھانچہ جھوٹ پر بنایا گیا ہے مثلاََ سیکولر ملک کہاجاتا ہے۔ جہاں پر مذہب کے لوگوں پر برابری لازم ہے۔ عملاََ یہ سیکولر نہیں بلکہ سخت متعصب ہندو ملک ہے، نمائش کے لئے اقلیتی فرقہ کے کچھ لوگ اعلیٰ عہدوں پر رکھ لئے جاتے ہیں ۔ مثلاََ صد ر یا نائب صدر مسلمان یا سکھ ، آرمی چیف سکھ، گورنر مسلمان یا سکھ یا اچھوت، دو چار مسلمان یا سکھ سفارت کاروغیرہ وغیرہ۔ ملازمت میں خاص طور پر اہم محکمات میں ہندو اور حکمران طبقہ کی ذات کے لوگ ہوتے ہیں۔”مَدَر انڈیا “ انگریزی میگزین کے ایڈیٹر بابو راؤ پٹیل نے لکھا تھا کہ ایک نہرو کی وجہ سے ہر محکمہ میں سینکڑوں پَسّو بجّو بھرے ہوئے ہیں، اکثر کشمیر یوں نے نام ”و“ پر ختم ہوتے ہیں۔ پاکستان کو خد ا جانے کب عقل آئے گی کہ مغربی ممالک کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کے خلاف ہمارے اور فلسطین کے بارہ میں اسرائیل کے خلاف عربوں کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ وہ جھوٹ بولتے رہیں گے اور بے شرمی سے جھوٹ بولتے ہی رہیں گے کیونکہ ان کے ہاں مصلحت کی خاطر جھوٹ بولنا جائز ہے۔ ایسی باتوں میں ان کے ہاں اخلاقیات کی بات کرنا بیوقوفی سمجھا جاتا ہے۔ اب آپ کو چند مشہو ر مغربی دانشوروں کے مقولہ جات بتلاتا ہوں جس سے آپ کو جھوٹ اور سچ کے بارہ میں فرق بتلایا گیاہے۔
(۱) ”بلی اور جھوٹ کے درمیان سب سے نمایاں فرق یہ ہے کہ بلی کی نو زندگیاں ہوتی ہیں جبکہ جھوٹ کی صرف ایک۔“(مارک ٹوئین)
(۲)”سب سے عام جھوٹ وہ ہے جو انسان خود سے بولتا ہے۔ دوسروں سے جھوٹ بولنا غیر معمولی ہے۔“(نیتشے)
(۳) ”سچائی ہمیشہ سامنے آجاتی ہے، قتل دیر تک چھپا نہیں رہتا۔“(شیکسپیئر )
(۴) ”سچائی آجکل عنقا ہے اور جھوٹ اس قدر عام ہے کہ جب تک ہم سچائی کے شیدائی نہ ہوں ہم اس کو نہیں پہچان سکتے۔“ (پسکال)
(۵)”سچائی کی راہیں دشوار و سخت ہیں اور ان پر چلنا دشوار ہوتا ہے۔“(مِلٹن)
یہ آخری کہاوت تو آج کل ہمارے چیف جسٹس اور عدلیہ پر صادق آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے اور صبر و ہمت عطا فرمائے۔ (آمین)















تازہ ترین