اسلام آباد (ایجنسیاں) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ پارٹی اور پارٹی لیڈر شپ مشکل میں ہے ٗ یہ وقت اختلاف رائے کے اظہار کا نہیں‘ بعض معاملات پر اختلافات ہیں‘ وزارت نہ لینے کی وجہ بتائی تو پارٹی کونقصان ہوگا‘نوازشریف اورشاہدخاقان نے آخری وقت تک کوشش کی کہ میں وزارت لے لوں مگر میں نہیں مانا ‘ نیوز لیکس معاملے کی تفتیشی رپورٹ عام ہونی چاہیے ٗ عدالتی حکم پر مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی گئی ٗ ٹرائل کورٹ حکم دے گاتومشرف کے ریڈوارنٹ جاری ہوسکتے ہیں ‘ آج بھی ویزوں اور بین الاقوامی این جی اوزکے معاملے پر پاکستان پر دباؤ ہے ، کئی سربراہان مملکت نے اس معاملے میں مداخلت کی ہے ، وزارت داخلہ کو ای سی ایل کی پالیسی پر شدیداندرونی دباؤکا سامنا ہے‘عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر تمام ادارے ایک پیج پر تھے ‘ہر غلط کام کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈالی گئی ‘میں نے سیاست چھوڑنے کا کبھی نہیں کہا۔
اتوار کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےچوہدری نثار نے واضح کیا کہ 24دنوں سے پارٹی اور حکومتی معاملات پر کوئی خبر لیک نہیں کی ،کوئی بیان نہیں دیا ، یہ وضاحت نہ کرنی پڑتی اگر مجھ سے منسوب بیان نہ چلا یا جاتا ‘ چوہدری نثار نے کہا کہ پارٹی میں بعض معاملات پر اختلاف رائے موجود ہے جس پر اجلاس میں کھل کر اظہار کرتا ہوں جبکہ کابینہ اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں بھی کی اور اجلاس میں ہونے والی باتیں لیک کی گئیں اور باتیں لیک کرنے والے بددیانت ہیں‘اپنے اصولی موقف پر آج بھی قائم ہوں اور اپنے اختلاف رائے کو اس لئے ظاہر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس وقت پارٹی اور پارٹی قیادت دونوں پر مشکل وقت ہے ‘میں سوا چار سال کی اپنی وزارت کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ، وزارت داخلہ کے پاس کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ‘میں اپنی کارکردگی پر کبھی اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا ‘یہاں جو اچھے کام ہوتے تھے تو سب اس کی ذمہ داری لے لیتے ہیں جبکہ خراب کام کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی جاتی ہے -
یہاں 20,20پر فوکس ہوتا ہے ، ٹیسٹ میچ پر کسی کی توجہ نہیں ‘عسکریت پسندوں سے مذاکرات پرتمام ادارے ایک پیج پرتھے تاہم پیپلزپارٹی، اے این پی اورایم کیوایم عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے ‘کرا چی ائیرپورٹ پرحملے کے بعددہشت گردوں کے خلاف آپریشن کافیصلہ کیاگیا لیکن تحریک انصاف ٗ جماعت اسلامی اورجے یوآئی آپریشن کی مخالف تھی تاہم قومی مفادمیں تینوں پارٹیوں نے آپریشن کی مخالفت نہیں کی‘ آج پاکستان میں نہ کوئی دہشت گردی کے مراکز ہیں ، زیر زمین نیٹ ورک نہیں چل رہا ‘دہشت گردوں کے خاتمہ کا آخری مرحلہ ہے اس میں کچھ مشکلات آئیں گی ‘ سرحدپاردہشت گردی کا نیٹ ورک بھی ہے اورمراکز بھی ‘ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر فوج آن بورڈ تھی‘ اسلام آباد میں400گھر ایسے تھے جو این جی اوز کے زیر استعمال تھے اور وہ اپنے آپ کو رجسٹر کروانے کو تیار نہ تھے ، میں نے ان کو رجسٹر کروانے کےلئے اقدامات کئے ‘مجھے آزاد میڈیا سے کوئی اختلاف نہیں‘میں نے اور میری وزارت نے مل کر کام کیا ہے ، آج کراچی ایک آدمی کے پاگل پن کا غلام نہیں ہے‘ کراچی آپریشن جب غلط روش پر گیا تو سندھ حکومت نے اعتراض کیا ، مجموعی طور پر سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومت نے ساتھ دیا ، ہم پر آج بھی بہت زیادہ پریشرز ہیں ، ای سی ایل کے حوالے سے آج بھی دباؤ ہے ، دوستی اور تعلق کا دباؤ ہوتا ہے ‘میں میٹنگ کے اندر بات کرتا ہوں ، اگر کسی نے میٹنگ کے اندر کی بات لیک کی تو وہ بددیانت ہے میں نہیں ‘ اسلام آباد میں کون سا غیر ملکی کہاں رہتا ہے وزارت داخلہ کے پاس مکمل ریکارڈ ہے ‘سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے کبھی سیاست چھوڑنے کا نہیں کہا‘ شاید میرے سمجھانے میں مسئلہ ہوا جبکہ یہاں خود سے کونسلر شپ نہیں چھوڑی جاتی میں نے وزارت داخلہ سے خود کو الگ کیا ٗمیں نے اختلاف رائے کی وجہ سے خود کو علیحدہ کیا جبکہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے آخری وقت تک کوشش کی کہ میں وزارت داخلہ کا منصب دوبارہ سنبھال لوں۔