کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام آپس کی بات میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ملتان واقعے کے بعد عدالت پیچھے ہٹ جاتی تو ادارہ تباہ ہوجاتا، ملتان واقعہ پیش آجانے کے بعد یہ کہا جانا کہ چیف جسٹس اس واقعے کا نوٹس نہ لیتے مناسب نہیں کیونکہ جس طرح ہلڑ بازی ہوئی گیٹ کو توڑا گیا ایسی صورتحال میںکس طرح سے ججز عزت سے کام کرسکتے تھے۔
چیف جسٹس اپنے ادارے کے سربراہ ہیں ،ان کو نوٹس لینا ضروری تھا اور انہوں نے لیا ، پروگرام میں عرفان قادر، غلام سرور، دانیال عزیز، امتیاز گل اور طلعت حسین نے بھی اظہار خیال کیا۔ سلمان اکرم راجہ کا کہناتھا کہ اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لینا اور یہ کہنا کہ بار کے صدر کو سرینڈر نہیں کیا جائے گا ا ور وکلا ء کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحول انتہائی افسوس ناک تھا۔
عدالت کے باہر جس طرح ہلڑ بازی اور نعرے لگائے گئے وہ مناسب عمل نہیں تھا ، معاملات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ اگر عدالت پیچھے ہٹ جاتی تو ادارہ تباہ ہوجاتا، وکلا کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کا استحقاق ہےکہ وہ ووٹ لینے کی خاطر من مانی کر سکیں ، یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جو بار کی سیاست میں پیدا ہوچکی ہے، الیکشن جیتنے کی خاطر وکلاء اصولوں کو پامال کرتے نظر آرہے ہیں، سلمان راجہ نے کہا کہ عدالت کیلئے ضروری ہے کہ وہ عدالتی اختیار کو استعمال کرے کیونکہ تمام بارز ناکام ہوچکے ہیں، یہ معاملہ کوئی معموملی نہیں جس پر مک مکا ہوجائے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔
ممبر پنجاب بار کونسل غلام سرور نے کہا کہ آج ہونے والے وکلاء پر تشدد کی بھرپور مذمت کرتا ہوں یہ غیر ضروری واقعہ تھا، اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، پنجاب بار کونسل نے لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی بنائی جس کا مینڈیٹ یہ تھا کہ ملتان میں جاکر ملتان بار کے صدر سے بات چیت کریں گے اور مسئلے کا کوئی درمیانی حل نکالنے کی کوشش کریں گے، ہائی کورٹ بار کا صدر جب اپنی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو یہ روایت ہے کہ اس کو عزت دی جاتی ہے ،اسی طرح ہم بھی ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ جب ہماری لیڈر شپ پیش ہوتو ان کو عزت دی جائے۔
ماہر قانونی عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچنے کیلئے اس کا جائزہ لینا ضرور ی ہے کہ یہ منطقی انجام تک کس طرح پہنچیں گا، وکلا ء کو اپنی حدود و قیود میں رہنا چاہئے، عرفان قادر نے کہا کہ پاکستان میں جج گردی ہوتی ہے اور سلمان اکرم راجہ بھی جج گردی کا شکار رہے ہیں اور انہیں اس چیز کا ذکر بھی کرنا چاہئے کیونکہ ان کے ساتھ اس وقت بہت زیادتی ہوئی تھی، سلمان کے خلاف بوگس کیس بنایا گیا تھا اور ان ججز کو نکال دینا چاہئے تھا لیکن سلمان اکرم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
سول ملٹری تعلقات پر بات کرتے ہوئے ن لیگ رہنما دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ جو حالات ہیں وہ اپنی داستاں خود بیان کرتے ہیں ، بات یا رائے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنی چاہئے کیونکہ حقائق جو ہیں وہ دب نہیں سکتے، حقیقت بات یہ ہے کہ جیسے یہ بتایا جارہا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ ایک 2شخص ہیں پاکستان میں جب عدلیہ کوحرکت میں آنا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بیماری ان کو لگ جاتی ہے ،عمران خان اشتہاری ہیں او ریہ ساری دنیا کوپتہ ہے ریکارڈ بتاتا ہے لیکن جب پارہ چنار میں کوئی ایشو ہوتا ہے تو اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو منع کردیا جاتا ہے لیکن ان کو وہاں پر پروٹوکول دیا جاتا ہے یہاں پر ہمیں ایک مختلف رویہ نظر آتا ہے ۔
افتخارچیمہ کے کیس کو لے لیں ان پر62(1)F نہیں لگی اور وہ ضمنی الیکشن میں منتخب ہوکر آگئے جبکہ نواز شریف صاحب کو اتنی سخت سزا ،پاکستان کا ماضی سب کے سامنے کھلی کتاب ہے کوئی بھی وزیراعظم نہیں چل پایا اور سب کوپتہ ہے کہ وہ عوام سے نہیں ہٹے تھے اور سب جانتے ہیں کہ کیسے ہٹے تھے عوام سادہ نہیں ہیں، اسے سب پتہ ہے ، یہ ابھی جو اداروں کی پاسداری کی بات ہورہی ہے جب ٹی وی کی نشریات بند ہورہی تھیں ، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ پر حملہ ہورہا تھا اس وقت تو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا تھا ۔