آج گجرات میں الیکشن ہے۔ قائد اعظم کی روح فریاد کرتی ہے کہ ان کے وطن کو درندوں اور نوسر بازوں سے آزاد کرایا جائے۔ کم از کم ایک آدھ گروہ سے۔
یہ قرارداد پاکستان کا دن ہے ۔ 70برس پہلے اسی شہر لاہور میں فیصلہ ہوا اور سات برس میں مقصد حاصل کر لیا گیا لیکن کیا واقعی حاصل کر لیا گیا؟۔ اگر یہ ایک آزاد ملک ہوتا تو کیا نواز شریف، پرویز الٰہی اور آصف علی زرداری ہی اس کے لیڈر ہوتے؟ آزاد ملک کا ایک آئین ہوتا ہے۔ وہ آئین کہاں ہے ۔وہ قانون کہاں ہے، خلق خدا جسکے سائے میں پناہ پاتی ہے۔ قانون نہیں افراد کی بالاتری ہے اور افراد بھی کیسے کہ اپنے ہم وطنوں کا لہو پیتے، نوچ نوچ کر اس ملک کی دولت دساور بھجواتے اور سامراج کی کاسہ لیسی کرتے ہیں۔ پارٹیاں نہیں ہیں مافیا ہیں۔ فوج کی گود میں پلنے والے لیڈر خواب دکھاتے اور نظریات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ نظریے اور خواب کیلئے ایثار کیا جاتا ہے لیکن قائداعظم کے پاکستان میں لیڈر لوگ ان کی تجارت فرمایا کرتے ہیں۔ احمقوں کے گروہ ان کے فریب میں ہیں اور ان کے اشارئہ ابرو پر حرکت کرتے ہیں۔ پارٹی پالیسی لیڈر کے من کی موج کا نام ہوتا ہے۔ فیصلے کرنے کی جب ایسی آزادی ہو تو جہالت اور خودپسندی کے سوا وہ کس چیز کا انتخاب کرے۔ قائد اعظم کے پاکستان کو انہوں نے چراگاہ بنا دیا۔
حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
جہالت، خودفروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
ڈیرہ اسماعیل خان میں مقابلہ جمعیت علماء ِاسلام اور پیپلز پارٹی کے درمیان برپا ہے ۔ تماشا سا تماشا، اسلام آباد میں حلیف ، ڈیرہ میں حریف۔
اللہ کے آخری رسول نے اس کی تقدیس پر زور بہت دیا تھاکہ ریاست ہی میں عزت اور جان محفوظ ہوتی ہے۔ مگر بعض صاحبان یہ کہتے ہیں : پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شامل نہ تھے۔ پاکستان سے زیادہ ان کی دلچسپی افغانستان میں ہے۔
سیاسی حربوں کے ایسے خوگر کہ 1970 کے الیکشن میں مفتی محمود مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو ایسے عبقری کو ہرا دیا تھا؛ اگرچہ ایک سبب یہ تھا کہ مفتی مرحوم مختلف تھے، سادہ اطوار اور خلق خدا میں گھلے ملے۔ مولانا فضل الرحمن بھی عامیوں میں آسودہ رہتے ہیں لیکن کردار مختلف۔ سیاستدان البتہ وہ بھی اتنے ہی کائیاں ہیں۔ امریکہ کے ہم خیال اسلام آباد کے حلیف لیکن استعمار مخالف جذبات بھڑکاتے اور دلوں کو موم کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پرندوں نے البتہ اب کی بار ان کا دانہ چگنے سے انکار کر دیا۔ قاضی حسین احمد کی بہترین کوششوں کے باوجود جو صوبہ سرحد میں دیوبند کی دونوں معتبر و محترم شاخوں ، جمعیت علماءِ اسلام اور جماعت اسلامی کا اتحاد چاہتے ہیں ۔ اطلاع یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے پیروکاروں کی اکثریت پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی یا لاتعلق رہے گی۔ منصورہ کو یہ معاملہ مقامی جماعت پر چھوڑنا پڑا؛ اگرچہ قاضی حسین احمد اس پر اداس بہت ہوں گے۔ لاہور میں حافظ سلمان بٹ کی تائید کے عوض جماعت اسلامی نے گجرات میں قاف لیگ کی حمایت کا وعدہ کیا تھا لیکن گجرات کی شاخ نے حکم قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ گجرات کے خبر نگاروں کا کہنا ہے کہ جماعتیوں کی اکثریت شیر کو ووٹ دے گی۔ خاک چاٹنے کے خوف سے دوچار چوہدری شجاعت نے فرمائش کی تھی کہ عمران خان ٹیلیفون پر ان کی خیریت پوچھ لیں تو لاہور میں قاف لیگ کا امیدوار تحریک انصاف کے حق میں دستبردار ہو جائے گا۔ کپتان نے برا سا منہ بنایا اور انکار کر دیا۔ پھر یہی فرمائش سید منور حسن سے ہوئی تو انہوں نے تعجیل کی۔ برسبیل تذکرہ یہ کہ راولپنڈی اور لاہور میں 60لاکھ روپے اور اپنی ساکھ برباد کرنے کے بعد جماعت اسلامی میں داخلی بحث تند و تیز ہے۔ نتیجہ کیا ہو گا، معلوم نہیں؟1954 سے یہ جماعت حیرت انگیز مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی غلطیوں پر اصرار کرتی آئی ہے۔ اب تو خیر سے سید منور حسن ہیں، ہمیشہ ردعمل میں فیصلے کرنے والے اور پارٹی کی حد تک جماعت اسلامی کا امیر طاقتور بہت ہوتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق بولے : عمران خان سے کہیے گجرات میں قاف لیگ کا ساتھ نہ دے۔ عرض کیا : خواجہ صاحب کپتان کو آپ جانتے ہیں مگر نہیں جانتے، اس طرح کی بات وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا ہے۔ تب یہ کوشش جاری تھی ، کہ لاہور میں عمران خاں قاف لیگ کی حمایت قبول کر لیں۔ بدشکل اور لولی لنگڑی چیز مگر کپتان کو کہاں بھاتی ہے۔ لاہور میں قاف لیگ کے ووٹ تھے ہی کتنے، زیادہ سے زیادہ تین سو۔
گجرات میں زیادہ کہ چوہدریوں کا اپنا شہر ہے ۔ ساٹھ برس سے تعلقات کا جال پھیلا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف ہی نہیں، نواز شریف کے پانچ سالہ اقتدار میں بھی ہزاروں پر انہوں نے عنایات کیں۔ چوہدریوں کے قدموں تلے دولت کے ڈھیر بہت ہیں۔ پھر چوہدری شجاعت کی وضعداری کا اثاثہ لیکن تصویر کا دوسرا رخ وجاہت فورس ہے، لٹھ بردار نہیں کلاشنکوف والے۔ چوہدریوں کے لئے مگر یہ بقا کی جنگ ہے، مٹ جانے اور فنا ہو جانے کے خوف میں بہترین صلاحیت بروئے کار آتی ہے۔ پرویز الٰہی نے چیخ و پکار بھی بہت کی ہے۔ اہل گجرات کے ایک ایک تعصب کو آواز دی کہ اجنبی ان کے شہر پر مسلط ہو جائیں گے۔ ادھر احمد مختار چوہدریوں کو ہرا کر 2008 ء کے احسان کا قرض چکانے کے آرزو مند ہیں۔ تب نواز شریف ان کے مددگار تھے۔ یہ کہنا مگر مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی کے کتنے لوگ احمد مختار کی بات سنتے ہیں۔ کچھ زیادہ مقبول وہ نہیں۔ نون لیگ کی ٹیم اچھی ہے ۔ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کافی ہوتے کہ دلیر ہیں اور خوئے دلنوازی رکھتے ہیں۔ کھوسہ بھی ہیں، معاف کیجئے سردار ذوالفقار احمد خان کھوسہ صاحب۔ اڑتی چڑیا کے پر گننے والے۔ پرویز الٰہی برصغیر کی تاریخ میں ضمنی الیکشن کے سب سے بڑے کاریگر ہیں، Technologist ہیں لیکن سرکاری گاڑیوں ، سرکاری افسروں اور سرکاری رعونت کے بغیر ؟
آج گجرات میں الیکشن ہے۔ قائد اعظم کی روح فریاد کرتی ہے کہ ان کے وطن کو درندوں اور نوسر بازوں سے آزاد کرایا جائے۔ کم از کم ایک آدھ گروہ سے۔ کم از کم پرویز مشرف ، اس امریکی مسخرے کے ہم نفسوں سے، کم از کم لال مسجد کے قاتلوں سے۔