جرمنی کی عظیم ڈاکٹر رتھ فاؤ نے بلاشبہ اپنی زندگی کا بہترین وقت پاکستان سے کوڑھ جیسا موذی مرض جڑ سے ختم کرنے میں صرف کر دیا، شہر قائد کراچی میں منعقدہ سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات کی تقریب میں صدر مملکت ممنون حسین، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ایئر چیف مارشل سہیل امان، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی ایم شیخ، گورنراور وزیراعلیٰ سندھ سمیت سیاسی اور عسکری قیادت کی موجودگی قومی یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے اس آہنی عزم کا اعادہ کررہی تھی کہ خدمتِ انسانیت سرحدوں قومیت کی محتاج نہیں ہوا کرتی اور عظیم انسان وہ ہے جو اپنی زندگی دکھی انسانیت کی بھلائی کیلئے تیاگ دے۔ پاکستانی پرچم میں لپٹے جسدِ خاکی کا آخری نظارہ کرنے والوں میںانسانیت کا درد رکھنے والے مسلمان، عیسائی،ہندو تمام مذاہب کے ماننے والے موجود تھے، سینٹ پیٹرک چرج جہاں آخری رسومات ادا کی گئیں وہاں پاکستان اور مقدس ویٹی کن کے پرچم سرنگوں تھے، مسلح افواج کی جانب سے عظیم ڈاکٹر کو انیس توپوں کی سلامی پیش کی گئی جبکہ سرکاری ٹیلی وژن نے تقریب کی براہِ راست کوریج کرکے دنیا بھر کے ناظرین کو یہ مثبت پیغام دیا کہ اگر پاکستان کی مدر ٹریسا کا درجہ رکھنے والی جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ پاکستان کو اپنے دل کا ملک قرار دیتی تھیں تو پاکستانی قوم بھی انکی لازوال خدمات کو شایان شان طریقے سے خراجِ تحسین پیش کرنے میں پیچھے نہیں ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک غیرمسلم کو سرکاری اعزاز سے سفرِ آخرت پر روانہ کرنا بذات خود اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ پچاس ساٹھ کے عشرے میں کوڑھ کا مرض پاکستان کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا تھا، یہ ایک ایسا موذی لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا جو چھوت چھات سے پھیلتا تھا اورگوشت گلنے سڑنے کی وجہ سے مریض کے جسم سے شدید بدبو آنے لگ جاتی، سب سے زیادہ تکلیف دہ رویہ مریض کے اپنے رشتہ داروں اور معاشرے کا ہوتا تھا کہ وہ علاج معالجے کی بجائے مرض کو گناہوں کی سز ا قرار دیکر مریض کو سسک سسک کر مرنے کیلئے آبادی سے دور پھینک آتے، کچھ انسانیت کا درد رکھنے والوں نے ان کوڑھی مریضوں کیلئے شہروں سے باہر کوڑھی احاطے تعمیر کروادئیے تھے جہاں لوگ منہ اور سر لپیٹ کر خوراک دیواروں کے اوپر سے اندر پھینکتے اور یوں بے چارے کوڑھی مٹی کیچڑ میں لتھڑی خوراک سے زندگی کی تکلیف دہ ڈور باندھنے کی کوشش کرتے جبکہ کوڑھی احاطوں میں انکی آسمان سے بلند ہوتی چیخ و پکار کو سماج کی جانب سے عذاب الٰہی قرار دیاجاتا۔پاکستان میں کوڑھ کا مرض ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 9مبر 1929ء کو جرمنی میں پیدا ہوئیںجہاں انہوں نے اپنی آنکھوں سے جنگ عظیم دوئم کی تباہ کاریاں دیکھیں، جنگی جہازوں کی ہولناک بمباری میں اپنے اکلوتے بھائی کو جان کی بازی ہارتے دیکھا، عالمی سامراجی قوتوں نے جرمنی کو تقسیم کیا تو وہ مذہب بیزار کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی ہجرت کر گئیں،انہوں نے دورانِ تعلیم طب ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری (دختران قلب مریم) نامی فلاحی مذہبی تنظیم سے وابستہ ہوکر اپنی زندگی دکھی انسانیت کے نام کردی، ڈاکٹر رتھ کا کہنا تھا کہ ہم اگر جنگ نہیں روک سکتے تو جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثرہ افراد کا جسمانی اور روحانی طور پر علاج تو کرسکتے ہیں،اس سلسلے میں انہوں نے میٹھے بول، اعلیٰ اخلاق اور انکساری کو اپنایا۔انہیں اپنی فلاحی تنظیم کی طرف سے بھارت میںمقیم ایک اور عظیم نامور خاتون مدر ٹریسا سے ملاقات کیلئے بھیجا گیا، ڈاکٹر رتھ بھارت کی سخت ویزا پالیسی کی وجہ سے وہاں تو نہ جاسکیں لیکن پاکستان نے انکا خوشدلی سے خیرمقدم کیا، اس زمانے میں ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری کے تحت کراچی میں میکلورڈ روڈ پرجھونپڑ پٹی میںایک محدود وسائل کی چھوٹی سی ڈسپنسری قائم تھی جہاں وہ کوڑھیوں کی دردناک حالت دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکیں، ڈاکٹر رتھ نے دل میں ٹھان لی کہ وہ اب پاکستان سے کوڑھ کا مرض ختم کرکے ہی سکون کا سانس لیں گی۔ اس کے بعد پاکستان میں انکے قیام کی 57سالہ داستان عظیم انتھک محنت، ہمت اور ولولے سے بھرپور ہے کہ کیسے ایک نوجوان مغربی خاتون ڈاکٹر نے زبان، مذہب اور سماجی طور پر مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک اجنبی ملک میں لاعلاج سمجھے جانے والے مرض کوڑھ کو شکست ِفاش دی، انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلورڈ روڈ پرطبی سینٹر قائم کرکے کوڑھیوں کا مفت علاج معالجہ شروع کردیا، مریض کے لواحقین جب انہیں کوڑھیوں کا چیک اپ کرتے دیکھتے تو حیرت زدہ رہ جاتے،وہ مریضوں کی مرہم پٹی بھی کرتیں اور اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا بھی کھلاتیں، انہوں نے موذی مرض کے خاتمے کیلئے ملک گیر حکمت عملی وضع کی، ڈاکٹر رتھ نے لوگوںکے رویوں میں تبدیلی لانے کیلئے آگاہی مہم شروع کی کہ خداوند ِتعالیٰ اپنے تمام بندوں سے پیار کرتا ہے اور کوڑھ کے مریضوں کو عذاب الٰہی میں مبتلا سمجھ کر نفرت کا نشانہ بنانے کی بجائے مرض کا خاتمہ کیا جانا چاہیے، اسی دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انہیں جوائن کرلیا اور یوں ایک اور ایک گیار ہ ہوگئے، ان دونوں کا قائم کردہ لیپروسی سینٹر 1965ء میں اسپتال بن گیا۔ انہوں نے چندے کے حصول کیلئے ہرایک کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ چندہ اکٹھا کرنے اپنے آبائی وطن جرمنی بھی گئیں جہاں کے شہریوںنے انہیں سترلاکھ کی خطیر رقم فراہم کردی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ نیک نیتی سے شروع کی جانے والی نوجوان ڈاکٹر رتھ فاؤ کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہونے لگی،پاکستان بھر میں لگ بھگ 156کوڑھ کے علاج کے مراکز قائم ہوگئے جہاں ساٹھ ہزار سے زائد مریضوں کو نئی زندگی ملی، کوڑھ کے مریض نہ صرف شفایاب ہوئے بلکہ عام شہریوں کی طرح بھرپور زندگی گزارنے کے بھی قابل ہو گئے، خدا نے انکے ہاتھ میں ایسی شفا رکھی کہ پڑوسی ممالک سے بھی کوڑھ کے مرض میں مبتلا کراچی پہنچنا شروع ہو گئے۔پھر1996ء میں وہ وقت بھی آگیا کہ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو کوڑھ سے مکمل پاک ملک قرار دیااورڈاکٹر رتھ کی شبانہ روز انتھک جدوجہد کی بدولت کوڑھ کا مرض ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاکستان سے ختم ہوگیا، اس حوالے سے وطن عزیز کو ایشیا کے پہلے ملک کا اعزازبھی ہوگیا۔دوسری طرف حکومت ِپاکستان نے بھی ڈاکٹر رتھ کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کی شہریت سے نوازا، انہیں مختلف مواقعوں پر ہلال پاکستان، ستارئہ قائداعظم، ہلال امتیاز، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم جیسے اعلیٰ اعزازات عطا کیے گئے، حکومت نے انکی مدر ٹریسا سے ملاقات کی خواہش پوری کرنے کیلئے مدر ٹریسا کو پاکستان مدعو کیا،اسی طرح آغا خان یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیاگیا، ڈاکٹر رتھ فاؤ کو انکے آبائی وطن جرمنی سمیت دیگر ممالک نے بھی مختلف اعزازات دیئے۔ ڈاکٹر رتھ کا دِل پاکستان میں جاری مذہبی کشیدگی پر خون کے آنسو روتا تھا، انکا اپنے پاکستانی ہموطنوں کے نام اپیل میںکہنا تھا کہ مذہب کے نام پر قتل و غارت بند کی جائے ورنہ خوشی کا حصول ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ آج ڈاکٹر رتھ فاؤ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن انکی روح کو سکون پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ انکے آخری پیغام پر دل و جان سے عمل کرتے ہوئے ملک بھر میں قومی ہم آہنگی اور خدمت ِانسانیت کو عبادت سمجھ کر فروغ دیا جائے، ہمیں ڈاکٹر رتھ کی زندگی کے بارے میںمواد نصابِ تعلیم میں شامل کرنا چاہیے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے جب عملی جدوجہد شروع کرتے ہیں توہمتِ مرداں مددِ خدا کے تحت خداوندتعالیٰ بھی انہیںلازمی طور پر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر رتھ نے تو پاکستان میں موجود نظر آنے والی جسمانی کوڑھ کی بیماری ہمیشہ کیلئے ختم کرڈالی لیکن تعصب، ناانصافی، حسد، شدت پسندی، عدمِ برداشت جیسی دیگرنادیدہ مہلک روحانی بیماریوں کوہمیں خود ہی اپنے اندر سے ختم کرنے کیلئے باہمی جدوجہد کرنی ہوگی جو کوڑھ کی طرح ہمارے قومی وجود کو دھیرے دھیرے ختم کرتی جارہی ہیں۔