• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبط عظمت دراصل ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اس بیماری کا شکار مریض خود کو سب سے زیادہ ذہین، سب سے زیادہ ایماندار، نیک اور سب سے زیادہ محب وطن سمجھتا ہے۔ جو اس کی رائے سے اختلاف کرے وہ کم عقل اور بد کار ٹھہرتا ہے اور جو اتفاق کرے وہ دنیا کا بہترین انسان قرار پاتا ہے۔ خبط عظمت کا شکار مریض اپنی ناکامی کو دنیا کے بہترین فکر و فلسفے کی ناکامی سمجھتا ہے لہٰذا وہ کبھی اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ ناکامی کے بعد بھی ایک بے بنیاد قسم کے احساس تفاخر میں مبتلا رہتا ہے او ر اس کا یہی احساس تفاخر آخر کار ایک تکلیف بن جاتا ہے۔ اس قسم کا مریض کسی اہم عہدے پر جا بیٹھے یا اس کے پاس کوئی اختیار آ جائے تو وہ صرف اپنی نہیں بلکہ اپنے ادارے اور بعض اوقات اپنی قوم کی تباہی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑایئے ۔ آپ کو خبط عظمت میں مبتلا ایک نہیں کئی مریض نظر آئیں گے بلکہ ایسا محسوس ہوگا کہ پاکستان میں یہ بیماری بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ خبط عظمت کے مریض ہر جگہ، ہر ادارے اور ہر جماعت میں اپنے آپ کو عظیم اور باقی قوم کو فقیر ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اکثر مریض حضرات بہت سے اختیارات کے مالک ہیں۔ یہ جب بھی اپنے اختیارات کیلئے کسی سے کوئی خطرہ دیکھتے ہیں تو کبھی آئین و قانون کے نام پر اور کبھی غریب عوام کے نام پر شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ مریض شور نہیں مچاتے بلکہ خاموشی سے سازش کرتے ہیں اور اپنی سازش کو قومی مفاد کا بہترین تقاضا بھی سمجھتے ہیں۔ آجکل خبط عظمت کے مریض آئین میں 18/ویں ترمیم پر اعتراضات کررہے ہیں کیونکہ یہ ترمیم چند افراد کے اختیارات کم کرکے اداروں کو مضبوط بنانے کی طرف ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔
18/ویں ترمیم کے بل پر اتفاق رائے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن سے کم نہیں۔ یہ کام چند دن میں نہیں ہوا بلکہ آئینی اصلاحات کی کمیٹی نے جون 2009ء میں کام شروع کیا اور مارچ2010ء کے آخر میں کام مکمل کیا۔ اس کمیٹی نے صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لیا، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے وزیر اعظم کو اپوزیشن لیڈر کے مشورے کا پابند بنایا، ججوں کی تعیناتی کا اختیار فرد واحد سے لیکر سات رکنی جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا اور مسلح افواج و گورنر کی تقرری کیلئے صدر کو وزیر اعظم کے مشورے کا پابند کیا۔ اسی طرح کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ اور بین الاقوامی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضوں کی نگرانی پارلیمنٹ کے سپرد کرنے کے علاوہ مرکز اور صوبوں میں کابینہ کے ارکان کی تعداد پر بھی آئینی پابندی لگا دی گئی۔ ان معاملات پر اتفاق رائے ایک ایسی پارلیمینٹ میں ہوا جہاں کسی ایک جماعت کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں لیکن افسوس کہ اس کے باوجود 18/ویں ترمیم پر اتفاق رائے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے خبط عظمت کے شکار مریضوں نے واویلا شروع کردیا ہے کہ 18/ویں ترمیم کا عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ یہ نکتہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ 18/ویں ترمیم دراصل عدلیہ کی آزادی کے خلاف سازش ہے۔ 18/ویں ترمیم کے بل پر اتفاق رائے کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے لیکن پہلے قدم پر جشن منانے والے محتاط رہیں تو بہتر ہوگا۔ اس بل کو پارلیمنٹ میں منظور کروا لینے کے بعد جشن منایا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ سازشیں بدستور جاری ہیں۔ خبط عظمت کے مریض پارلیمنٹ کے وجود کو اپنے اختیارات کیلئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں لہٰذا وہ پارلیمنٹ کے اختیارات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے ہر انتہا تک جانے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔
بد قسمتی یہ ہے کہ خبط عظمت کے مریض صرف اہم قومی اداروں میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں بھی بیٹھے ہیں۔ ایک مریض 18/ویں ترمیم کے بل پر اتفاق رائے کرنے والوں کا اسلام آباد میں بیٹھ کر مذاق اڑاتا ہے تو دوسرا مریض کراچی میں بیٹھ کر اعلان کرتا ہے کہ ہم بے نظیر بھٹو کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے۔ 18/ویں ترمیم کی منظوری کے بعد پیپلز پارٹی اور سپریم کورٹ میں ایک دفعہ پھر محاذ آرائی کی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ایک رکن پنجاب اسمبلی کے شوہر، صدر زرداری کے دست راست ڈاکٹر قیوم سومرو کے دوست اور ایف آئی اے کے مشہور افسر احمد ریاض شیخ کی سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتاری کے بعد سے کچھ لوگوں کا لب و لہجہ بہت تلخ ہوچکا ہے۔ 2009ء میں پنجاب میں گورنر راج نافذ ہوا تو احمد ریاض شیخ کو صوبائی سیکریٹری داخلہ بنانے کی کوشش ہوئی تھی لیکن وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس کوشش کو روک دیا تھا۔ گورنر راج کے دنوں میں احمد ریاض شیخ نے جو کردار ادا کیا اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے لیکن وہ اتنے اہم نہیں کہ ان کی وجہ سے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے مقابلے پر کھڑا کردیا جائے۔
صوتحال کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ملک و قوم کو خبط عظمت کے مریضوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کی فوری کوشش کریں۔ وزیر اعظم کو تسلیم کرنا ہوگا کہ 18/ویں ترمیم کے اعلان کے فوراً بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان کا استعفیٰ کوئی اچھی خبر نہیں اور اب ان کی اپنی ہی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے بھی وزیر قانون بابر اعوان پر بہت سے الزامات لگا دیئے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کم از کم اپنی پارٹی میں خبط عظمت کے مریضوں کے علاج کا فوری بندوبست تو کرسکتے ہیں۔ اس وقت وزیر اعظم کی سب سے اہم ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ 18/ویں ترمیم پر پارلیمینٹ میں جلد از جلد بحث مکمل ہو اور یہ بل پارلیمینٹ سے اسی ہفتے منظور ہوجائے۔ دوسرے مرحلے میں کابینہ کے ارکان کی تعداد میں کمی ایک آئینی مجبوری ہوگی اور یوں وزیر اعظم کو کابینہ میں صفائی کا موقع مل جائے گا۔ وزیر اعظم نے اس صفائی میں مہارت اور ذہانت سے کام نہ لیا تو پھر کوئی یہ نہیں کہے گا کہ ایوان صدر صفائی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ خود وزیر اعظم نے اپنی جیب میں گندے انڈے ڈال رکھے ہیں۔ یہ گندے انڈے جہاں کہیں بھی موجود ہیں انہیں اٹھا کر باہر پھینکنا اب صرف اور صرف وزیر اعظم کی ذمہ داری ہوگی اور جب وزیر اعظم یہ کام احسن طریقے سے انجام دیں گے تو قوم کو خبط عظمت کے مریضوں سے خود بخود نجات مل جائے گی۔
تازہ ترین