انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ،فیصلہ کل سنائے جانے کا امکان ہے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر، سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم شہزاد پیش ہوئے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ کل سنائے جانے کا امکان ہے۔
گزشتہ روز پولیس افسران کے وکلا نے مزید دلائل پیش کرتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ بے نظیر بھٹو کو مکمل سیکورٹی دی گئی تھی، اگر وہ گاڑی سے باہر نہ نکلتیں تومحفوظ رہتیں، گاڑی میں دیگر تمام قائدین مکمل طور پر محفوظ رہے تھے۔
گواہ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے بتایا کہ ناہید خان نے بے نظیر بھٹو کوگاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کو ہاتھ ہلانے کے لئےکہا اور ناہید خان، رزاق میرانی نے گاڑی کی چھت کا دروازہ بھی کھول کر دیا۔
واقعے کے بعد بے نظیر بھٹو کے زیر استعمال 2 بلیک بیری 2 سال کے بعد تفتیشی ٹیم کو دئیے گئے۔ اس عرصے تک وہ کس کے زیر استعمال رہے، یہ نہیں بتایا گیا، کرائم سین تمام شواہد جمع کرکے دھویا گیا تھا۔
استغاثہ نے یہ نہیں بتایا کہ کرائم سین دھونے سے ان کا کون سا ثبوت ضائع ہوا، پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے بارے میں الزام کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی لاش کی میڈیکل رپورٹ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ سامنے موجود ہے جس پر موت کی وجہ درج ہے، ڈاکٹرز نے بھی عدالت میں موت کی وجہ بتائی ہے۔
خیال رہے کہ 27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ میں انتخابی جلسے کے بعد روانگی پر لیاقت باغ چوک میں خود کش حملے کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں جب کہ سانحہ کا مقدمہ تھانہ سٹی پولیس میں درج کیا گیا تھا۔
اس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو مکمل سکیورٹی فراہم نہیں کی جب کہ عدالت انہیں مقدمے میں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دوران سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل میں کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔