میں نے لکھا تھا کہ لندن میں اخبار گارڈین کی طرف سے جو ادب میلہ لگایا جا رہا ہے اس میں پرویز مشرف بھی شرکت کریں گے ۔اب لوگ سوال کررہے ہیں کہ ادیبوں کے اس اجتماع میں بھلا پرویز مشرف کس خوشی میں شریک ہوں گے ؟ وہ کہاں کے ادیب ہیں؟اگر ایک جھوٹی سچی آپ بیتی لکھنے سے انسان ادیب کہلا سکتا ہے تو کتنے ہی فوجیوں اور سیاست دانوں نے آپ بیتیاں لکھی ہیں لیکن انہیں تو کبھی کسی نے ادبی تقریب میں اس طرح نہیں بلایا؟۔ اور پھرتقریب بھی ایسی جس میں نوبیل انعام پانے والی ناول نگارنیڈین گورڈیمر جیسے امعروف دیب شرکت کررہے ہیں ؟ میرے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے ۔ بلکہ میں تو خود اخبار گارڈین اورادب اور ادیبوں کا گیارہ دن کا میلہ لگانے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر مشرف صاحب کویہ اعزا ز کیوں بخشا جا رہا ہے ۔ ؟ کمال تو یہ ہے کہ گارڈین نے اس میلے کی جو خبر شائع کی ہے اس میں سب سے پہلے پرویز مشرف کا ہی نام ہے ۔ اس کے بعد اسرائیلی سفیر کا نام ہے اور پھر مارٹن ایمز ، زیڈی اسمتھ اور نیڈین گورڈیمر جیسے ممتاز اور معروف ناول نگاروں کے نام ہیں ۔میں تو سازشوں پریقین نہیں رکھتا مگر اپنے انتظار حسین کہتے ہیں کہ اس میں بھی مغرب والوں کی کوئی سازش ہے ۔ مغرب والے پرویز مشرف کوتاریخ کے تاریک صفحوں میں دفن نہیں کرنا چاہتے ۔ وہ کسی نہ کسی بہانے انہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں ۔گویا وہ ہماری جمہوریت کو پسند نہیں کرتے ۔ خیر، مغرب کا تو مجھے معلوم نہیں البتہ ہمارے اپنے ہاں ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ لوگ ان صاحب کو بھول جائیں ۔ اب یہی دیکھئے کہ ایک ٹی وی چینل نے یہ مبا حثہ کر ڈالا کہ ملک کے نازک اور سنگین حالات نے لوگوں کو پرویز مشرف یاد دلا دئے ہیں ۔ اور لوگ کہنے لگے ہیں کہ اس سے تو مشرف کا زمانہ ہی اچھا تھا ۔ ایک اور ٹی وی چینل پرویز مشرف کے انٹر ویو نشر کرتا رہتا ہے ۔اس پر مجھے وہ بزرگ یاد آ جاتے ہیں جو آزادی کے بعد جب بھی کوئی الٹی سیدھی بات ہو جاتی تھی تو کہہ دیتے تھے کہ اس سے تو انگریزوں کا زمانہ اچھا تھا کہ امن و امان توتھا اور قانون کی پاسداری بھی کی جا تی تھی ۔وہ بزرگ اپنے بھولپن میں یہ نہیں سوچتے تھے کہ غلامی اور آزادی میں کوئی فرق بھی ہو تا ہے ۔ ٹی وی چینلز کے بارے میں تو خیر میں کچھ نہیں کہتا کہ انہیں اپنے چینل چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی چٹ پٹی اور سنسنی خیز چیز چاہئے ، لیکن پرویز مشرف کو یاد کرنے اور یاد کرانے وا لے سیاست دانوں اور معاشرے کے دوسرے لو گوں کومیں بھولا بھالا ہر گز نہیں مانتا۔در اصل ان لوگوں کو جمہوریت راس نہیں آتی۔ اس لئے وہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ جمہوریت اور جمہوری نظام کو کیسے تتر بتر کیا جا ئے ۔کتنے ہی مہینوں کی محنت اور کوشش کے بعد خدا خدا کر کے آئین میں اٹھارویں ترمیم تیار کی گئی ۔اورمیاں رضا ربانی کی پارلیمانی کمیٹی نے تمام جماعتوں کے اتفاق سے یہ ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی اور قومی اسمبلی نے اسی اتفاق سے اسے منظور بھی کر لیا۔ صوبہ سرحدکے نئے نام پختونخواہ پر میاں نواز شریف کوجو اختلاف تھا وہ اس طرح دور کر دیا گیا کہ پختونخواہ کے ساتھ خیبر کا سابقہ بھی لگا دیا گیا۔ اس کے بعد امیدپیدا ہو گئی تھی کہ سیاسی جماعتوں کا یہ اتفاق برقرار رہے گا ۔ اور اب سب جماعتوں کے اتفاق کے ساتھ عام آ دمی کے مسائل کی طرف توجہ دی جائے گی ۔لیکن ادھر یہ اتفاق اور اتحاد سامنے آ یا اور ادھر ہزارہ میں آگ بھڑک اٹھی ۔اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آ تی ۔ اگر صوبے کے متفقہ نام پر کوئی اعتراض تھا تو اس وقت پیش کیا جا نا چاہئے تھا جب پارلیمانی کمیٹی میں اس پر بحث ہو رہی تھی ۔ اس وقت تو کچھ نہیں کہا گیا ،بلکہ تمام جماعتوں کے ساتھ ق لیگ کے وسیم سجاد صاحب اور ایس ایم ظفر صا حب نے بھی اس پر دستخط کر دئے اورتحریری طور پر کسی قسم کے تحفظ کا اظہار نہیں کیا ۔بعدمیں جب سب کچھ طے ہو گیا اور قومی اسمبلی کے بعد اسے سینٹ میں پیش کیا گیا تو انہیں یاد آ یا کہ خیبر پختونخواہ تو انہیں پسند نہیں ہے ، اس میں تو ہزارہ کا نام بھی ہونا چاہئے تھا ۔ اب اگر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جو الیکشن میں مسلم لیگ (ن) سے ہار گئے تھے تو کیا وہ غلط کہہ رہے ہیں ۔خیبر پختونخواہ میں ہزارہ ہی ایسا علا قہ ہے جو ہمیشہ پر امن اور پر سکون رہا ہے ۔ وہاں کبھی اس قسم کے ہنگامے نہیں ہوئے ۔ آج بھی وہاں کے معصوم باشندوں کوکچھ پتہ نہیں کہ انہیں کس سیاسی چال کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔ کتنی ہی معصوم جانیں بلا وجہ ضائع ہو گئیں ۔ یہ لوگ محض اس نعرے پر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں کہ انہیں ہزارہ کے نام سے الگ صوبہ مل جائے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر واقعی لوگوں کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ضرور اس پر غورکیا جا نا چاہئے ۔ لیکن ایک سیاسی اور آئینی مسئلے کو عوام کی منتخب اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں لانے کے بجائے سڑکوں او ر گلیوں میں لانے کا مقصد کیا ہے ؟ ۔ اور پھر اس وقت سڑکوں پر لانا جب اتفاق رائے سے سب کچھ طے ہو چکا ہے۔محمد علی درانی نے جب بیٹھے بٹھائے اچانک بہاولپور کا شوشہ چھوڑا تھاتو اسی وقت جاننے والے جان گئے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ کہا گیا تھا کہ پر ویزمشرف کے جو ساتھی کھنڈر بن گئے ہیں وہ پھرسر سبزمیدانوں کی طرف آ رہے ہیں ۔محمد علی درانی کے بارے میں یہ بات اس لئے بھی کہی جا رہی تھی کہ اسلام آباد میں پرویزمشرف کے حواریوں نے جو دفتر بنا رکھا ہے اس میں درانی صاحب بھی تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ جمہوری ملکوں میں نئے صوبے بنتے ہی رہتے ہیں ۔سرائیکی صوبے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جنوبی پنجاب کو ایک انتظامی یونٹ کی ضرورت ہے ۔لاہور وہاں سے بہت دور ہے، اس لئے اس کے بہت سے مسئلے حل نہیں ہو ر ہے ہیں۔ لیکن بہاولپور کو صوبہ بنا نے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ۔ اگر بہاولپور ایک ریاست تھی تو خیر پور، قلات اور سوات بھی ریاست تھی ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اتنے پیچیدہ معاملات ہیں کہ انہیں سڑکوں پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اور اب ہزارہ کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد انیسویں ترمیم کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جائے تو اس سے یہ مسئلہ اور بھی الجھ جا ئے گا۔خاص طور سے اس وقت جب آگ لگی ہوئی ہے ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ یک کمیشن بنایا جائے جو آئینی اور انتظامی امور سامنے ر کھتے ہوئے تمام صوبوں کی نئی تشکیل پر غور کرے ۔ وہ ہندوستان کا تجربہ سامنے رکھے اور یہ دیکھے کہ یہ صوبے زبان کی بنیاد پر بنائے جائیں یا انتظامی بنیاد پر ۔ لیکن اس سے پہلے ہزارہ میں بھڑکنے والی آگ پر قابو پانے کے لئے کمیشن تو بنائیے ۔ وہاں کے لئے فورا کمیشن بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ غیر جانب دار کمیشن تحقیق کرے کہ وہاں آگ کیوں لگی اور کس نے لگائی ۔ اس کے بعد مسئلے کا حل تلاش کیا جائے ۔ ورنہ حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس سے خطرہ یہ ہے کہ کہیں لوگ ایک بار پھر پرویز مشرف کو یاد نہ کر نے لگیں۔ پر ویزمشرف کو یاد کرانے والے بہت سر گرم ہیں ۔