قومی اسمبلی اور پاکستانی سینٹ کی متفقہ منظوری اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخطوں کے ساتھ آئین میں 17 ویں ترمیم کی جگہ لینے والی اور قومی آئین کو مارشل لاؤں اور آمریتوں کی آلائشوں سے پاک کرنے والی اٹھارہویں ترمیم آئین کا حصہ بن گئی ہے۔ قومی آئین کی اس حیاتِ نو کی تقریب میں ملک کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف اور ان کے لیڈروں کی شرکت پاکستان کی اس مصالحانہ اور مفاہمانہ سیاسی تبدیلی کا ثبوت پیش کرتی ہے جس کے ذریعے تکمیل پاکستان کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کیا جا سکتا ہے اور تکمیل پاکستان کا خواب پاکستان کے عوام کے اصل اور بنیادی مسائل حل کرنے کا خواب ہے۔ غربت، جہالت، بھوک، بیماری دور کرنے کا خواب ہے۔ تعمیر و ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنے اور ان پر سفر اختیار کرنے کا خواب ہے۔
بے شمار مسائل اور اَن گنت مشکلات کے باوجود صدر آصف علی زرداری کی قیادت اور رہنمائی میں آٹھ سالہ فوجی آمریت سے نجات پانے والی سیاسی حکومت نے مصالحت، مفاہمت اور مصلحت کی سیاست کے اصولوں پر کام کرتے ہوئے متحدہ اور مشترکہ سیاسی کوششوں سے مملکت کی سب سے اہم دستاویز آئین پاکستان کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس طریقے سے آمریتوں کے شب خون کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور آئین کی خلاف ورزی کا اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہ گیا مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک پاکستان کے لوگوں کے غربت، جہالت، بھوک اور بیماری کے اصل اور بنیادی مسائل حل نہیں کئے جائیں گے تمام کے تمام خطرات موجود رہیں گے۔ بلاشبہ آئین ایک بہت ہی اہم اور قابل احترام دستاویز ہوتی ہے مگر اس آئین پر عملدرآمد اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ آئین کو اس کی اصل حالت میں تبدیل کرنے والی ترمیم میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی ترمیم صوبائی اختیارات سے تعلق رکھتی ہے اور سب سے پہلے توجہ چاہتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کو ان کے وہ تمام اختیارات دیئے جائیں جن کے ذریعے وہ اپنے عوام کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مصالحت، مفاہمت اور مصلحت کے جذبات کا بھرپور مظاہرہ کرنا پڑے گا اور یہی وہ آزمائش ہے جو اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری نے قوم اور ملک کے سامنے پیش کی ہے۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کا امتحان ہو گا کہ وہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں کہاں تک مفاہمت اور مصالحت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
آئین میں اٹھارہویں ترمیم اور اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے تعاون کے مظاہرے کے بعد حکمرانوں کے پاس عوام کے مسائل حل کرنے، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے عذابوں پر قابو پانے کی راہوں میں کسی رکاوٹ کا بہانہ نہیں رہ جائے گا۔ بلاشبہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسے عذاب چند گھنٹوں یا چند دنوں میں قابو میں نہیں لائے جا سکتے مگر حکمرانوں کی کوششوں سے ان کی شدت میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ قدرت نے پاکستان کے عوام کو بے پناہ صبر سے نوازا ہے۔ ان کو اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں کوئی عمل ہوتا ہوا دکھائی دے تو وہ صبر اور شکر سے مثبت نتائج کا انتظار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں نے دیکھا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اربابِ اختیار نے گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں کے دوران سیاسی مصالحت اور مفاہمت کے ذریعے ”این ایف سی“ جیسے مسائل کو حل کیا ہے۔ بلوچستان کے عوام کے حقوق کی حفاظت کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے جمہوری حقوق بھی فراہم کئے ہیں اور یہی مصالحت اور مفاہمت آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے متفقہ طور پر منظور اور قبول ہونے کا سبب بنی ہے۔ یہی مصالحت اور مفاہمت اگلے عام انتخابات تک عوام کے بیشتر مسائل اور ان کی شدت میں کمی لانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں تصادم، گڑبڑ اور انتشار پیدا کرنے والی سیاست نہیں چلے گی۔ مفاہمت، مصالحت اور برداشت اور تعاون کی سیاست چلے گی۔ مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کو اپنانے اور اسے بروئے کار لانے میں بے پناہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں مگر بہتر مستقبل پر یقین رکھنے والے سیاستدانوں کو سینیٹر رضا ربانی جیسی ہمت، جرأت اور برداشت سے کام لینا پڑے گا اور اس طریقے سے ویسے ہی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے جیسے رضا ربانی اور ان کے ساتھی اور ہم خیال کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ شروع سے آخر تک مایوسی اور ناامیدی ان کے قریب نہیں پھٹک سکی۔