اور آخر کار عمران خان نے وہ بھی کر دکھایا جو پاکستانی سیاستدانوں کا خاصہ نہیں کہ کبھی وہ اپنی منصوبہ بندی اور پالیسیوں کو ناکام بھی مان لیں، عمران خان نے بی بی سی کو انٹرویو کے دوران خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتی ترجیحات کے حصول کی ناکامیوں کا اعتراف کیا، ان ناکامیوں کے لئے نہ صرف اپنے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ خود ان کے اپنے ہی منتخب ایم پی ایز اس بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتے رہے جو انہوں نے بنا کر پورے پاکستان کو حیران کردیا تھا، اس کے باوجود کہ ان کے محکمہ صحت اور تعلیم کے حالات کچھ ایسے قابل رشک بھی نہیں انہوں نے اس کو اب بھی سب سے بہتر قرار دیا۔ اورجو سب سے بڑی بات کر کے انہوں نے خود اپنے ہی لوگوں سے ہوا نکال دی کہ اچھا ہے کہ ان کی جماعت گزشتہ عام انتخابات میں پورے ملک میں نہیں جیتی ورنہ ان کی وہی حالت ہوتی جو خیبرپختونخوا میں ہوئی۔ ان کی کیا حالت ہوئی اس بارے میں وہ خود کچھ کہیں تو خیر ہے لیکن ان چار سالوں کے دوران اگر مجھ جیسے صحافی نے کبھی کچھ لکھ دیا کہ ان کی حکومت ٹھیک طرح سے نہیں چل پا رہی تو ہم پر سوشل میڈیا پر ایسے لوگ چھوڑے گئے جن کا کام ہی عزت دار لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا ہے تاکہ وہ پھر تحریک انصاف کا نام لے کرتنقید نہ کرے۔
شروع میں حکومت بننے کے بعد جب ایک مرحلے پر انہوں نے اپنے وزرا کو کرپشن اور ناکارہ ہونے کی بنیاد پر بدلا تواس وقت ہم نے ایک کالم لکھا کہ خان صاحب آپ جتنے چاہے مرضی لوگوں کو بدل دیں آپ کے نام پر منتخب ہو کر اسمبلی میں آنے والی لاٹ میں ایسا کوئی نہیں جو آپ کی توقعات پر پورا اترتا ہو۔ ہم نے صرف ایک واقعہ لکھا کہ جب کسی کے پاس آلو، پیاز اور بیسن ہو تو اس سے صرف پکوڑے ہی بن سکتے ہیں، ہم نے یہ مثال ان کے نام پر منتخب ہونے والوں کے بارے میں دی تھی کہ وہ جو ہوا کے دوش پرمنتخب تو ہوگئے لیکن وہ اس لئے بھی کوئی تبدیلی نہیں لا پائیں گے کہ وہ پہلی بار منتخب ہوئے تھے اورعمران خان کے وژن کو سمجھ کر اسمبلی اور حکومت کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ساری باتیں ایک تجزیے کا حصہ تھیں لیکن خان صاحب کے ’’ان گائیڈڈ میزائلوں‘‘ نے سوشل میڈیا پر ہمیں اور ہمارے اخبار کی انتظامیہ کو وہ گالیاں دینا شروع کیں جو ماضی میں کسی فاشسٹ سے فاشسٹ جماعت نے بھی نہیں دی تھیں، یوں یہ اعزاز بھی تحریک انصاف نے اپنے پاس رکھ لیا۔
اس سرزمین جس پرعمران خان صاحب کو مینڈیٹ دیا گیا تھا کے باسی ہونے کی حیثیت میں ہم پر اس مٹی کا قرض تھا کہ وقتاً فوقتاً کسی بھی فورم پر آواز بلند کر کے حکمرانوں کو یاد دلاتے رہیں کہ آپ جو وعدے کر کے آئے تھے اس میں سے کوئی ایک آدھ پورا بھی کرنا ہے۔
پھر انہوں نے قومی وطن پارٹی کو کرپشن کے نام پر خود سے الگ کیا توہم نے کہا کہ یہ تو بڑا آسان ہے کہ کسی پر الزام لگا لیا جائے کہ وہ چور ہے لیکن اس کو ثابت کرنا ممکن نہ ہوگا، اس پر بھی ہمیں چوروں کا حمایتی کہہ کر گالیاں دی گئیں۔ وہ الگ بات ہے کہ اس معاملے میں عدالت میں ہتک عزت کے ایک مقدمے سے عمران خان صاحب کی جان بخشی کرانے کے لئے تحریک انصاف کی معتبر قیادت کو خود اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر کی قیادت میں چل کر اس قومی وطن پارٹی کے ایک ایم پی اے بخت بیدار کے حجرے میں جرگہ لیکر جانا پڑا تھا جنہوں نے عمران خان کی جانب سے لگنے والے الزامات کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا اور اس میں امکان تھا کہ فیصلہ عمران خان کے خلاف آئے۔
پھر صوبے کا موجودہ مرحوم احتساب شروع ہوا تو تحریک انصاف ہوائوں میں اڑ رہی تھی کہ انہوں نے اپنے ہی وزیر ضیااللہ آفریدی پر ہاتھ ڈال کر جیسے کوئی خزانہ پالیا ہو، ہم نے پھر صحافی کے طور پر تجزیہ کیا کہ بھائی لوگ اس کو ثابت بھی کرنا پڑے گا، بس پھر گالیوں کی بہتات ہم پر کی گئی۔
پھر بلدیاتی انتخابات میں جب تحریک انصاف نے دیگر’’گندی سیاست کی حامل‘‘ جماعتوں ہی کی طرز پر دھونس دھاندلی، غنڈہ کلچر اور بندوق سمیت پولیس کو استعمال کر کے الیکشن جیتا ہم نے بدقسمتی سے پھر تبصرہ کرلیا کہ تحریک انصاف کو بھی دیگر جماعتوں سے الگ نہ سمجھا جائے، ہم پر پھر تنقید ہوئی، شہر کے اسپتالوں میں خواجہ سرائوں کا علاج کرانے سے انکار ہوا تو ہم نے پھر کہا کہ یہ تحریک انصاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو مجبور کرے کہ وہ مرد، عورت اورخواجہ سرا نہیں بلکہ انسان سمجھ کر سب کاعلاج کرے، ہم پھر معتوب ٹھہرے۔
اس سب کچھ کے دوران سینیٹ کے انتخابات میں جس طریقے سے پارٹی کے اراکین سے ووٹ لئے گئے ہم نے اس سیاسی حکمت عملی پرتحریک انصاف کو داد دی تو اسے بھی ہماری برائی سمجھ کر ہمیں ہی گالیاں دی گئیں۔ ہم نے دھرنوں میں خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل کے استعمال کی جانب توجہ دلائی تو گالیاں ملیں۔ اسپتالوں میں نظام کی خرابی کا اشارہ دیا تو بھی ہم مجرم، اور جب ہم نے یہ کہا کہ سرکاری اسکولوں کے برے ترین نتائج آنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے تو پھر ہمیں اپنا مخالف کہا گیا۔ ڈینگی کی وبا کو جس بری طرح انہوں نے ہینڈل کیا اس کی تو کہیں بھی مثال نہیں ملتی، لوگ ہیں کہ اب بھی مررہے ہیں اور شنید ہے کہ صوبائی حکومت کسی لاچار سرکاری افسر پر سارا ملبہ ڈال کر فارغ ہوجائے گی۔ فہرست بڑی طویل ہے لیکن اتنے عرصے تک الزامات کے یہ درد سہنے کے بعد عمران خان صاحب نے جو ہمیں ریلیف دیا ہے دل کے اندر سے ان کے لئے دعا نکل رہی ہے کہ انہوں نے اپنی ہی حکومت کے بارے میں، اپنے ہی منتخب لوگوں کے بارے میں ہمارے خیالات کی توثیق کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ہم ٹھیک تھے اور ہماری بات کو سمجھے بغیر قیادت کے کہنے یا ان کے کہے بغیر ہم پر الزامات لگانے والے غلط تھے جنہیں اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ وہ عمران خان جو کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں اور ان کے ماننے والے ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں ایک دن خود مان لیں گے کہ پشاور میں بیٹھا ہوا ایک عام صحافی جو لکھ رہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ اللہ بھلا کرے عمران خان صاحب کا، کبھی ملے تو بنفس نفیس شکریہ ادا کرونگا کہ جاتے جاتے ہمارے سارے گناہ دھو کر ہمیں صاف کر گئے۔