• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستر کی دہائی میں امریکہ نے سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے کے بعد اس کے خلاف طویل جنگی حکمت ِ عملی کے تحت زیادہ سے زیادہ مسلم ممالک کے افراد کواس جنگ میں شریک کرنے کے لئے اسے ’’مذہبی جنگ‘‘ قرار دینے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ بڑی عالمی طاقتوں کے مفادات کے لئے ہونے والی اس جنگ کو مقدس جنگ یا ’’جہاد‘‘ قرار دے دیا گیا اور نوجوان مسلمانوں کو اس میں شامل کرنے کے لئے امریکہ کی لمبراسکا یونیورسٹی میں خصوصی طور پر نصاب تیار کیا گیا۔ جس میں ایسا مواد شامل کیا گیا جس سے مذہبی انتہا پسندی اور ایسے ’’جہادی نظریات‘‘ کو فروغ ملے۔ جن کا اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ لیکن امریکی ماہرین تعلیم بخوبی جانتے تھے کہ تعلیمی اور سائنسی لحاظ سے پسماندہ اقوام کو ’’گمراہ‘‘ کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی ’’حربہ‘‘استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے مسلم دنیا کے سرکردہ ممالک کے سربراہوں کے تعاون سے تمام مسلم دنیا سے چن چن کر ایسے افراد اور گروہوں کو اس جنگ میں شامل کیا گیا جو اپنے اقتدار کے لئے امریکی امداد اور تعاون کے محتاج تھے۔ ان میں مسلم دنیا کے وہ تمام فوجی اور دیگر غیر منتخب حکمران شامل تھے ۔ جو اپنے اقتدار کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں پہلے منتخب وزیر اعظم ذوا لفقار علی بھٹو کی حکومت کو ایک امریکی سازش کے تحت ختم کردیا گیا تھا اور ملک میں جنرل ضیاء کی فوجی آمریت قائم ہو چکی تھی۔ تاکہ پاکستان کو اس امریکی مفادات کی جنگ میں ’’میدان ِ جنگ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ 1977میں مبیّنہ انتخابی دھاندلیوں کے نام پر شروع ہونے والی اس تحریک میںملک کی وہ تمام مذہبی سیاسی پارٹیاں شامل تھیں۔ جنہیں عوام نے ہمیشہ انتخابات میں مسترد کیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے یہ تحریک انتخابی دھاندلیوں کے نام پر شروع کی گئی ۔ لیکن جب مسٹر بھٹو نئے انتخابات کرانے پر تیار ہوگئے تو یہ تحریک ’’نظامِ مصطفیٰ ‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔ جس کی آڑ میں جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور مسٹر بھٹو کو راستے سے ہٹا نے کے لئے قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا کیونکہ کوئی منتخب سیاسی رہنما اس نام نہاد ’’جہاد‘‘ کے لئے پاکستان کو ’’میدانِ جنگ‘‘ بنانے کی امریکی سازش میں شریک نہیں ہو سکتا تھا۔ ابتداء میںجنرل ضیاء کو ’’نوے دن‘‘ کے اندر انتخابات کروانے کے نام پر اقتدار میں لایا گیا۔ لیکن امریکی مفادات کے لئے اس کی ’’شاندارکارکردگی‘‘ کی بنا پر اسے گیارہ سال کے لئے مسندِ اقتدار عطا کردی گئی۔ ان گیارہ سالوں میں پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں مذہبی انتہا پسندی کو خوب فروغ دیا گیا۔ گلی کوچوں میں انتہا پسند گروہ تشکیل پائے جانے لگے۔ یہ گروہ پہلے غیر مسلموں سے جنگ کرنے کے لئے تیار کئے گئے لیکن رفتہ رفتہ یہ فرقہ وارانہ گروہوں میں تبدیل ہو گئے اور مسلمانوں کے اندر مختلف فرقوں میں قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔ کیونکہ اس کے پسِ پشت وہ خطیر مالی امداد تھی جس کے حصول کے لئے یہ گروہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ اور مسلمانوں کی سرزمین ، مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوگئی۔ اس نام نہاد جہاد کے پہلے حصّے میں اسامہ بن لادن اور ان جیسے بیشمار مجاہدوں کو امریکی سرپرستی میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ جبکہ سوویت یونین کی افغانستان میں شکست اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکی سامراج نے اپنے گروہوں کو نیوورلڈ آرڈر نافذ کرنے کے لئے عراق، لیبیا ، شام اور دیگر مسلم ممالک میں حکومتیں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔
جس کے نتیجے میں ان ممالک میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیل گئی۔ اور کچھ سال پہلے تک جو عرب ممالک تیل کی دولت کی وجہ سے کافی امیر سمجھے جاتے تھے۔ غربت اور بے چارگی کی تصویر نظر آنے لگے ۔ افسوس اس ’’خونی کھیل‘‘ کا آغاز افغانستان سے ہوا اور اس میں پاکستان کے ڈکٹیٹروں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ جن کے ساتھ اس وقت پاکستان کے تمام مذہبی لیڈر اور ادارے شامل تھے۔ پاکستان کو خود بھی اس کھیل میں ناقابل ِ تلافی نقصان ہوا۔ امریکی امداد تو چند لیڈروں کی جیب میں گئی لیکن عوام کو اس کی انتہائی خوفناک سزا بھگتنا پڑی پاکستان کو 70ہزار سے زائد بیگناہ پاکستانیوں کی جان کی قربانی اور اربوں ڈالر نقصان کے باوجود ، امریکہ سمیت ساری دنیا کے طعنے سننے پڑرہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے قریبی دوست چین نے بھی برکس کانفرنس میں انتہا پسندی کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کردیا ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو اس قدر فروغ حاصل ہوا ہے کہ اس دوران پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی نسل کے لئے مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کے واقعات کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو دو عوامل نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا ہے جس میں ایک آمرانہ نظامِ حکومت ہے اور دوسرا مذہب کے نام پر سیاست۔ آمرانہ نظام چاہے وہ عسکری ہو یا ملوکیت ۔ عوام کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کردیتا ہے۔ جس میں اپنے مستقبل کے بارے میں نظام کی تشکیل اور دوسرے ممالک سے تعلقات کا حق بھی شامل ہے ۔ آمرعوام کو ایسے معاہدوں اور جنگوں میں دھکیل دیتے ہیں جن میں انکی مرضی شامل نہیں ہوتی ۔ اسی طرح دنیا کی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ ریاستی امور یا سیاست میںاپنے مفادات کیلئے مذہب کا استعمال انتہائی خوفناک نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ عملی طور پر تمام مذہبی فرقوں کی منشا کے مطابق نہ تو قانون سازی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس پر اتفاقِ رائے ۔ البتہ تمام آفاقی سچائیوں کو جو ہر مذہبی نظام کا حصہ ہوتی ہیں، مذہب کا نام لئے بغیر نافذ کیا جا سکتا ہے جس پرآج تمام مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کاربند ہے۔ لہذا اگر ہم اپنے معاشرے سے مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں دو بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ایک تو ہر حال میں جمہوری عمل کو برقرار رکھا جائے اور دوم ریاستی امور میں مذہبی فرقہ واریت کو روکا جائے۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ پاکستان کہیں عراق اور شام نہ بن جائے۔

تازہ ترین