قارئین یہ کالم نہیں میرے آنسو ہیں، میرا کرب ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو گلگت بلتستان سے صرف خوبصورتیاں سمیٹ کر آتے ہیں۔ کیا کروں نہ جانے کیسے فطرت کے نظاروں کے ساتھ ساتھ دھرتی کے سینے میں چھپی چیخیں، دِلوں میں بسی آہیں، اور آنکھوں کی پتلیوں سے جھانکتی محرومیاں میرے دل تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں۔ مجھ سے مکالمہ کرنے لگتی ہیں۔ میری سہیلی بن کر مجھے راز کی باتیں بتانے لگتی ہیں اور پھر اپنا درد مجھے سونپ کر مجھ سے مداوا کرنے کا وعدہ بھی لے لیتی ہیں۔ گلگت میں دو روزہ قیام کے دوران میں نے فضائوں میں فطرت کے ترنم کے ساتھ لوگوں کی آہوں کو رچا بسا محسوس کیا تو منیر نیازی کا یہ مصرع یاد آیا؎
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
شاید یہ مصرع انہوں نے کسی ایسی ہی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہو گا جہاں ظاہری حسن آپ کی حسِ جمالیات کو رقص کرنے پر مجبور کر دے اور دلوں کا درد آنکھوں سے اُمڈ آئے۔
ایک، دو، چار، دس سال نہیں پورے ستر برس سے گلگت بلتستان شدید استحصال کا شکار ہے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد بندر بانٹ اور اداروں کے درمیان سوکنوں کی لڑائی میں کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ریاست کے مسائل اور معاملات کی طرف توجہ دے۔ مجموعی طور پر قانون سازی کی بجائے ساری سیاسی اور فوجی حکومتوں کی توجہ گلیاں پکی کرانے جیسے معاملات اور وقتی الجھنوں کو سلجھانے تک محدود رہی۔ گلگت بلتستان کی ایک نسل قانون سازی اور اپنے حقوق کی خواہش لئے دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ اب خواب دیکھنے والوں کی آنکھوں میں اداسی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ اداسی مایوسی اور بے بسی میں ڈھل جائے اس علاقے کے مسائل کی طرف حکومتِ پاکستان کو بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔
بھلا ہو آصف علی زرداری نے جس ایک تاریخی، ادبی اور ثقافتی ورثے کی حامل اکائی کو شمالی علاقہ جات کی بے نامی سے آزاد کر کے گلگت بلتستان کا نام دے کر ایک صوبائی وحدت کی شکل دی۔ اگرچہ کہنے کو وہاں وزیر اعلیٰ، وزراء، صوبائی اسمبلی اور باقی تمام لوازمات موجود ہیں مگر ویسا اختیار اور بجٹ نہیں جو دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے پاس ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کے پاس مادی دولت کم ہے مگر ان کی خود داری میں جو وقار ہے وہ بادشاہوں کو نصیب نہیں۔ جذبوں کی فراوانی اور قوت ارادی کا یہ حال ہے کہ 1947ء میں بے سروسامانی یعنی جنگی اسلحے کی غیر موجودگی میں ڈوگرہ راج کو یہاں سے نکال کر پاکستان سے وابستگی کا اعلان کر دیا۔ ان کی حب الوطنی کا تقاضا یہ کہ اکثریت پاکستانی فوج میں بھرتی ہونے اور ملک کا دفاع کرنے پر فخر کرتی ہے۔ کارگل جنگ میں یہاں کے بہت سے جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ہندوستان کی چالیں زمانے سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ ہمارے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹیں ڈالنے اور چین سے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری خصوصاً گوادر پورٹ ہندوستان اور کئی بڑی طاقتوں سمیت ہمارے کئی دوست مسلمان ملکوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح چبھتی ہیں کیوں کہ گوادر کی وجہ سے ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ وہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے کچھ زر خرید لوگوں سے بیانات دلوا کر جنیوا میں بورڈ لگواتے رہتے ہیں لیکن اب ہم دشمنوں کی چالوں سے آگاہ ہو چکے ہیں اور ہماری یکجہتی میں دراڑ ڈالنا کسی کے بس میں نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مثالیں قائم کر رکھی ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ عالمی ضمیر نے مسلمان کے استحصال کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہندوستان کے غلام ہیں کہ اپنا ہر معاملہ اس کی اجازت اور پسندیدگی کو مدنظر رکھ کر طے کریں یا اس یو این او سے امید باندھے رکھیں جسے کشمیر، برما، فلسطین، افغانستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں لگی آگ نظر آتی ہے نہ وہاں کے مظلوموں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔
ریاست کو فوری طور پر گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس صوبے کو خاص اہمیت دیتے ہوئے اس کے لئے بجٹ مخصوص کرنا چاہئے۔ ویسے جس قدر اس صوبے میں پہاڑوں کے بیچ بہتے دریائوں اور چشموں کے حسین مناظر ہیں وہاں ہوٹل آباد کر کے انہیں سیر گاہوں کی حیثیت دے کر سیاحت کو فروغ دیا جائے تو یہ امیر ترین صوبہ بن سکتا ہے۔ سیاحت کے فروغ اور اس علاقے کے باقی ملک سے کٹا ہونا دشوار گزار سڑکوں اور ہوائی سفر میں ناقص سہولتیں سب سے بڑا سبب ہیں۔ چالیس پینتالیس سیٹوں والے پی آئی اے کے چھوٹے طیارے میں زیادہ تر سرکاری افسران اور سیاست دان ہی سفر کرتے ہیں۔ سیاحت کے لئے جانے والے اور مریضوں کو کئی کئی دن سیٹ کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہاں پی آئی اے کی بڑی ایئر بس چلائی جائے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال ڈیڑھ ملین والے صوبے نے دو ملین سیاحوں کو خوش آمدید کہا۔ سرمایہ کاروں کو یہاں مختلف فیکٹریاں لگانی چاہئیں تا کہ علاقے کے لوگوں کو روزگار میسر ہو اور خوشحالی کی طرف سفر آغاز ہو۔ جب یہ صوبہ ترقی کر جائے تو اس پر ٹیکس لاگو کر کے دیگر صوبوں کے برابر حیثیت دی جائے۔ قانونی معاملات کو نظر انداز کرنے سے نہیں حل کرنے سے بات بنتی ہے۔ جس ملک میں حکومت کو توسیع دینے کے لئے ریفرنڈم ہو سکتے ہیں وہاں ان علاقوں کے بارے میں قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے موجودہ وفاقی حکومت نے گزشتہ حکومت کے گلگت بلتستان کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو بالکل آگے بڑھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے کھاتے میں ابھی تک صرف دو اچھے فیصلے ڈاکٹر کاظم نیاز کو چیف سیکرٹری اور حافظ حفیظ اللہ کو وزیر اعلیٰ مقرر کرنا ہے۔ دونوں معاملات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور نیک نیتی سے مسائل کے حل کی طرف کوشاں ہیں۔ گلگت بلتستان میں شاعروں، لوک فنکاروں اور گلوکاروں کی پذیرائی کے لئے کوئی ادارہ نہیں۔ صرف چند لوگ جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ اسلام آباد میں آ کر اپنے فن کو دنیا کے سامنے لے آتے ہیں مگر اکثریت اس سے محروم رہتی ہے اس لئے وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان میں پی ٹی وی چینل کا فوری آغاز کر دینا چاہئے تا کہ وہاں کی تقریبات قومی سطح پر نشر ہو سکیں اور وہاں کے ادب و ثقافت کی نمائندگی ممکن ہو۔
حیرت کی بات ہے گلگت میں بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے رہے کہ 45دنوں کے بعد میاں شہباز شریف کیوں نہیں آ رہے۔ میں بھلا کیا جواب دیتی لیکن وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ اللہ نے جب اپنی تقریر میں اپنے آپ کو خادمِ بلتستان کہا تو مجھے احساس ہوا کہ خادمِ پنجاب اب پاکستان میں ایک آئیڈیل بن چکے ہیں۔ فیض نے کہا تھا؎
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
پاکستان میں ابھی تک بہت سارے معاملات التوا کا شکار ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر اس جدوجہد کا حصہ بن جائیں۔ ہم حکومت کو قائل کریں کہ وہ جمہوری اقدار کی پاسبانی کرتے ہوئے قانون میں درج جمہور کے حقوق اور اختیارات انہیں سونپ دے۔ ریاست کو دفاع، کرنسی، خارجہ امور اور عدلیہ کے علاوہ باقی تمام اختیارات صوبوں کو تفویض کر دینے چاہئیں تا کہ وہ اپنے اپنے صوبوں کے وسائل سے اپنی زندگیاں خوشحال بنا سکیں۔ صرف اسی صورت میں پاکستانی ریاست ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔