آج ہم نے حلقہ120میں عوامی عدالت کے فیصلے پر اظہارِخیال کرنا ہے جسے ہمارے سابق کھلاڑی سپریم کورٹ کے خلاف فیصلہ قرار دیتے رہے ہیں لیکن یہاں ’’گھر کی صفائی‘‘ کے حوالے سے جو بحث چل نکلی ہے اور اس میں سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار جس نوع کی ’’صاف گوئی‘‘ سے کام لے رہے ہیں پہلے اس کا جائزہ۔ چوہدری صاحب ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ میں سچا کھرا اور صاف گو آدمی ہوں۔ مجھ میں منافقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ میں خوشامدی نہیں ہوں۔ کتنی کڑوی بات بھی ہو ذمہ واری سے منہ پر کرتا ہوں۔ چوہدری نثار مصر ہیں کہ گھر کے اندر چاہے جتنی بھی گندگی ہو اس کا پتہ باہر والوں کو ہرگز نہیں چلنا چاہئے ورنہ دوسروں کے سامنے ہماری آن بان شان خراب ہو جائے گی۔
بات چلی تھی وزیرخارجہ سے جو وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال سے ہوتی ہوئی وزیراعظم خاقان عباسی تک پہنچی کہ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے یا الزامات لگانے سے پہلے ہمیں خود اپنے گھر کی صفائی کرنی چاہئے۔ یہ درویش تو دو دہائیوں سے لکھتا چلا آرہا ہے کہ اپنے گھر کے گند کو خود صاف کر لو بجائے اس کے کہ کوئی باہر سے آکر اسے صاف کرے۔ آج ٹرمپ کے بیانیے سے ہمیں بڑی تکلیف پہنچی ہے اسی لئے تو اُسے ہم مودی اور اشرف غنی جیسا دشمن قرار دینے لگے ہیں مگر اصل دکھ تو یہ ہے کہ ہمارے شہد سے میٹھوں نے بھی اپنی میزبانی میں جو پانچ رکنی سمٹ منعقد کروائی تو اس کا اعلامیہ بھی ٹھیک وہی تھا جس کی مذمت میں ہم اپنے گلے پھاڑ رہے تھے۔ اب UN کی جنرل اسمبلی سے اٹھنے والی عالمی برادری کی آوازوں پر بھی ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ دنیا ہماری گندگی پر ہمیں نہ سمجھائے۔ اب عالمی برادری ڈو مور کرتے ہوئے یہ اعتراف کرے کہ ادھر سے عطر و پرفیوم کی خوشبوئیں آ رہی ہیں۔ گویا عالمی برادری ہماری باجگزار ہے یا ہم نارتھ کوریا ہیں۔ چوہدری صاحب آپ ماشاء اللہ سب کے سامنے صاف گوئی کے دعویدار ہیں۔ بھیگی بلیاں تو آپ کے دشمن ہیں لہٰذا اپنے دوستوں کو سمجھائیں کہ پاکستان جمہوریت اور الیکشن کا فیضان ہے یہ شمالی کوریا ہے نہ اس پٹری پر چلنے کا متحمل۔
آپ وزیراعظم سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ کو گھر کی صفائی سے کس نے روکا ہے؟ ناچیز آپ کو تفصیل سے بتا سکتا ہے کہ کس نے روکا ہے لیکن کیا آپ یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہاں سچ بولنا صرف عوامی مینڈیٹ والوں کے سامنے جائز ہے دیگر لوگوں کے سامنے جو بولا جاتا ہے اُس کے لئے خوشامد کا لفظ بھی جائز نہیں ہو گا ورنہ آپ اپنے مہربانوں کو یہ ضرور کہتے کہ جن نان اسٹیٹ ایکٹرز کو آپ اپنے اثاثے خیال کر رہے ہیں انہی کو تو دنیا اموات کے سوداگر قرار دیتی ہے۔ محترم جناب چوہدری صاحب! بحیثیت وزیرداخلہ کیا آپ ہی نہیں تھے جو اپنے ان مہربان دوستوں کے دکھ کو اپنا دکھ خیال کرتے تھے ڈرون حملوں میں ان کی ’’شہادتوں‘‘ پر آپ کے آنسو نکلتے تھے۔ دنیا ہم پر جھوٹے الزامات عائد کرتی ہے جبکہ ہم جبرو دہشت کے خلاف جنگ کو امریکی جنگ نہیں خود اپنی جنگ قرار دیتے رہے ہیں۔ اس لئے ہم اُن سے بھلا اس کا معاوضہ کیوں طلب کرتے۔ بس غلطی یہ ہوتی رہی کہ سارے جنگجو ہماری صفوں سے ہی ناجانے کیوں برآمد ہوتے رہے۔ سابق وزیراعظم کی یہ بہت بڑی زیادتی ہے جو انہوں نے چوہدری صاحب جیسی بڑی شخصیت کو ان کی خواہش کے مطابق وزیرخارجہ نہیں بنایا ورنہ عالمی تنہائی میں ہم شمالی کوریا کو شکست دے سکتے تھے۔
درویش نے ایک حالیہ ملاقات میں موجودہ وزیر داخلہ کو جب یہ کہا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر آپ کو چار سال قبل اس ذمہ داری پر لگا دیا جاتا اور چوہدری صاحب کو سی پیک کا منصوبہ سونپ دیا جاتا، اس پر جو معلومات ملیں وہ فی الحال آف دی ریکارڈ ہی رہیں تو بہتر ہے کیونکہ ہم دوستوں میں غلط فہمیاں بڑھانے کے نہیں ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس منفی بیانیے کو رگیدنے کی بجائے حلقہ 120کے نتائج کا جائزہ لیں۔ حالانکہ اس میں بھی چوہدری صاحب کے حوالے سے ایک غلط بات ہوئی ہے وہ یہ کہ جسے چوہدری صاحب لیڈر نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ بچوں کے طور پر لیتے ہیں اُس کی اچھی خاصی سیاسی مقبولیت ہو گئی ہے۔ اُس کی یہ پذیرائی آگے چل کر پارٹی یا فیملی کو توڑنے کا باعث بنتی ہے یا جوڑنے کا اس کا جائزہ میاں صاحب اور ان کے معتمدین کو ضرور لینا چاہئے بلکہ مثبت پیش بندی کا اہتمام بھی ہونا چاہئے بالخصوص شوہر نامدار کے حوالے سے۔ دوسری طرف چھوٹے میاں کو بھی یہ امر ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ ن لیگ کی عوامی مقبولیت باہمی اتحاد اور بڑے میاں کی قیادت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
جو نرم خو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں کامیابی کی کنجی ہے بڑے میاں نے خواہ مخواہ یہ چابی گنوا دی ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور چیزیں توازن و وقار کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہیں۔ المناک کہانی یہ ہے کہ کہانی یہاں تک محدود نہیں رہنی ہے مہربانوں کے اندر کئی اور خواہشات بھی انگڑائی لے رہی ہیں۔ پارلیمنٹ ہمارے لئے کوئی اجنبی ادارہ تھوڑا ہے۔ باہمی بیگانگی کی فرسودہ رسومات کا خاتمہ ہونا چاہئے شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا اہتمام ہو جائے جس سے طاقتوروں کو کوئی آئینی رول مل سکے۔ ہماری رائے میں اگلا معرکہ دو پارٹیوں کے درمیان ہوگا۔ اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ نے زیادہ تیزی دکھائی تو سپریم جوڈیشری کے ذریعے عبوری حکومت کی جگہ تھوڑے سے طویل دورانیے کی قومی حکومت کا خدشہ بھی موجود ہے۔ کیونکہ پاپولر جمہوری لیڈر مہربانوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف کا یہی اصل جرم ہے اس سلسلے میں اندرونِ ملک تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے البتہ بیرونِ خانہ ہمارے دشمن ہم پر جس نوع کا دبائو ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس کا توڑ ہمارے لئے اصل چیلنج ہے۔