• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعہ کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) نے انتخابی اصلاحات کے جس بل کی منظوری دی اس سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کیلئے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ایوان بالا نے، جس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے فیصلہ کن طاقت ہونے کا تاثر نمایاں تھا، اپوزیشن کی ان ترامیم کو ایک ووٹ کی اکثریت سے مسترد کر دیا، جن کا مقصد موجودہ قانون کی اس شق کو برقرار رکھنا تھا جس کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے نااہل قرار پانے والا کوئی شخص کسی سیاسی پارٹی کا عہدیدار نہیں بن سکتا۔ الیکٹورل ریفارمز پیکیج پارلیمانی جماعتوں نے تقریباً تین برسوں کی انتھک محنت سے تیار کیا تھا۔241 شقوں پر مشتمل قانون میں چونکہ ایوان بالا نے ترمیم کی ہے اس لئے اب یہ دوبارہ قومی اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا، اور صدر مملکت کی توثیق کے بعد مسلم لیگ (ن) کی یہ خواہش پوری ہوجائے گی کہ نواز شریف کا سیاسی کردار جاری رہے جبکہ اپوزیشن کی کوشش یہ معلوم ہوتی تھی کہ سابق وزیراعظم کا یہ کردار جاری نہ رہے۔ دونوں فریقوں کا منتہائے مقصود ایک فرد کے گرد گھومتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ صورتحال اس بنا پر پیدا ہوئی کہ وطن عزیز میں سیاسی پارٹیاں منشور، نظریات اور پروگراموں کی بجائے شخصیات کے حوالے سے چلتی ہیں اور اسی موروثیت کی طرف جاتی محسوس ہو رہی ہیں جو مسلم اکثریت کے حامل بیشتر ملکوں میں نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں لوگ پارٹیوں کے منشور دیکھ کر ان میں شامل ہوتے ہیں اور کسی معاملے میں اختلاف رائے پیدا ہو تو پارٹی کے اندر ہی تبادلہ خیال کر کے قیادت تک بدل دینے کے فیصلے کر لئے جاتے ہیں۔ آمریت کے دور میں شامل کی گئی شق کے خاتمے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کا اظہار ہوا اور عمران خان سمیت کئی لیڈروں کے سروں پر لٹکتی ہوئی وہ تلوار ہٹ گئی جو الزامات کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ مذکورہ آئینی ترمیم سے سیاسی جماعتوں کے استحکام میں مدد ملنے کی توقعات کی جا رہی ہیں جبکہ مستقبل میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اس شق سمیت دوسری شقوں میں ترامیم کی گنجائش موجود ہے۔

تازہ ترین