اسلام آباد (شکیل انجم)سابق صدر اور مارشل لاایڈ منسٹریٹر جنرل پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کا قاتل سابق صدر آصف زرداری کو ٹھہراکر قومی سطح پر پر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے ۔پرویز مشرف نے آصف علی زرداری کوبینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بھی ماسٹر مائنڈ ہیں۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بیان اس لئے دیا کہ انہیںبراہ راست بینظیر بھٹوکے قتل میں ملوث قرار دیا جارہا ہے ۔
اور یہ بیان دینے میں حق بہ جانب ہیں۔جنرل مشرف نے اپنی صفائی پیش کرنے اور اپنے آپ کو اس معاملے سے الگ کرنے کیلئے یہ بیان دیا لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ بیان انکے اپنے ماضی کے بیان کی نفی کے طور پر لیا جائیگا۔سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ جب بینظیر بھٹو کا قتل ہواتب پرویز مشرف صدر مملکت تھے اور اس حوالے سے اپنے فرائض سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب انہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل میں براہ راست آصف زرداری ،سابق افغان صدر حامد کر زئی اور ٹی ٹی پی کے رہنماء بیت اللہ محسود کو ملوث قرار دیا تو اور ان حقائق سے واقف بھی تھے تو آخر کون سے عوامل تھے جس نےانہیں بین الاقوامی سطح کے اہم معاملے پر خاموش رہنے پر مجبور کیا ہےاور انہوں نےانٹر پول ،اقوام متحدہ اور قومی تحقیقاتی ٹیموں کی اس حوالے سے کوئی مدد بھی نہیں کی۔اگر جنرل پرویز مشرف کو واقعی بینظیر کے قاتلوں کے بارے میں کچھ معلوم تھا تو انہیں آگے آکر تحقیقاتی اداروں،انٹر پول اور اقوام متحدہ کے کمیشن کی مدد کر نا چاہئے تھی تاکہ حقائق معلوم ہوسکتےاگر بینظیر قتل میں آصف زرداری .
سابق افغان صدر حامد کر زئی اور بیت اللہ محسود اور دیگر عناصرکےملوث ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت تھے تو انہوں نے یہ ثبوت تحقیقاتی اداروں اور کمشنز کو کیوںفراہم نہیں کیئےکہیں ایسا تو نہیں کہ وہ آصف زرداری کے ساتھ وہ بھی بینظیر بھٹو کے قتل میں برابر کے شریک تھےکیا اسی وجہ سے جنرل مشرف خاموش رہنے پر مجبور تھےچونکہ جنرل مشرف اس وقت ریاست کے سربراہ تھے لحاظہ نہ بینظیر بھٹو بلکہ تمام سیاسی رہنمائوں کے تحفظ کیلئے فول پروف انتظامات کرانا ان کی ذمہ داری تھیواضح رہے کہ جنرل مشرف چھوٹے انتظامی افسران پر واقعہ کی ذمہ داری ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتےمزید یہ کہ جب اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم تاج نے لیاقت باغ جلسہ سے ایک دن قبل بینظیر بھٹو سے ملاقات کر کے انہیں کہاکہ آپ لیاقت باغ ریلی میں شرکت نہ کریں کیونکہ ہمارے ایسے شواہد موجودہیں کہ وہاں آپ کو قتل کیا جاسکتا ہے تو ایسی صورت میں جنرل مشرف نے بینظیر سے ملاقات کرکے انہیں جلسہ نہ کرنے پر کیوں آمادہ نہ کیامزید براں یہ کہ جب جنرل مشرف کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ بینظیر بھٹو باجود تمام خطرات کے اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں تو حکومت کی طرف سے مس بھٹو کے تحفظ کیلئے خصوصی سیکورٹی انتظامات کیوں نہ کیئے گئےیہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ کس کے کہنے پر جلسہ کے اختتام پزیر ہونے کے بعد خروج کا راستہ تبدیل کیا گیااور اس حوالے سے پارٹی رہنمائوں کو بھی آگاہ نہیں کیا گیاراستے کی اچانک تبدیلی کی وجہ سے بینظیر بھٹو کے قافلے کے گزرنے میں تاخیر ہوئی ۔
ان تمام معاملات کی ذمہ دار اس وقت کی حکومت ہے اور ریاست کے سربراہ ہونے کے سبب جنرل مشرف بھی اس کے ذمہ دار ہیںیہ بھی ایک سوال ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کے جسد خاکی کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کرایا گیا اگر پوسٹ مارٹم کرایاجاتا تو بینظیر بھٹو کی موت کی وجوہات سامنےآسکتی تھیںاسی طرح جس گاڑی میں بینظیر بھٹو سوار تھی اس کی چھت کے لیور کے حوالے سے میڈیا کو متضادباتیں بتائی گئیں اور اسی عوام میں بھی میڈیا کے ذریعے ایسی خبریں پھیلائی گئیںجہاں تک بات ہے کہ آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کی نعش کا پوسٹ مارٹم کرنے سے منع کیا تھا تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت آصف زرداری بذریعہ جہاز اسلام آباد کی طرف محو سفر تھے اور جب وہ اسلام آباد ہوائی اڈے پر اترے تو اس وقت بینظیر بھٹو کا تابوت پہلے ہی لاڑکانہ لے جائے جانے کیلئے تیار پڑا تھا۔واضح رہے کہ بینظیر بھٹو کے جسد خاکی کا پوسٹ مارٹم کرانا ریاست کی ذمہ داری تھی اور اس کی ذمہ داری شہید بینظیر کے ورثاء پر نہیں ڈالی جاسکتی ۔
جب بینظیر بھٹو کے جنازہ ڈاکٹر مشتا ق کی سربراہی میں ایک میڈیکل ٹیم دیکھ رہی تھی تو اس وقت آئی ایس آئی کا ایک اہلکار کیوں ارد گرد منڈلارہا تھا۔جائے حادثہ کو اس قدر عجلت میں کیوں دھویاگیا جب کہ فارنزک ٹیم کیلئے جائے حادثہ کے شواہد اہم ترین ہوتے ہیں۔یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے کیا گیا تھا ۔آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل مشرف براہ راست آصف زرداری پر بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔کیا وہ ایسا کر کے بینظیر بھٹو قتل کیس میں سزا پانے والے دو پولیس افسران کی مدد کرنا چاہتے ہیں؟