• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خان صاحب کی سیاسی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وہ مسلسل کوئی نہ کوئی مطالبہ کرتے رہیں۔ وہ اس مطالبے کو سیاسی سرگرمی اور گہما گہمی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جلوس نکالتے ، جلسے کرتے اور ضرورت پڑے تو دھرنے بھی دیتے ہیں۔ اسکا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ انکے کارکنان کا لہو گرم رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ خود ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد وہ دو سال تک مسلسل یہ الزام دہراتے رہے کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور انکی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا ہے۔ اس احتجاجی مہم کے دوران انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کیساتھ مل کر اسلام آباد میں کوئی چار ماہ طویل دھرنا بھی دیا۔ انکی توقع کے بر عکس کسی امپائر کی انگلی تو نہ اٹھی تاہم سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان پرمشتمل ایک انکوائری کمیشن ضرور بن گیا۔ انکوائری کمیشن نے جولائی 2015 میں اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کر دی کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی اور الیکشن کمیشن کی چھوٹی موٹی لغزشوں کے باوجود انتخابی نتائج رائے عامہ کی درست ترجمانی کرتے ہیں۔ خان صاحب نے آج تک اس فیصلے کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔اسکے بعد انہیں پانامہ کا قضیہ مل گیا ۔ وہ " گو نواز گو" کی مہم پر چل نکلے۔ اب وہ معاملہ بھی انجام کو پہنچا۔ نواز شریف نااہل ہو کر گھر چلے گئے اور عمران خان کو یہ پریشانی لگ گئی کہ اب کیا کریں؟ بالآخر اچانک وہ یہ مطالبہ لے کر آگئے کہ فوری طور پر نئے الیکشن کرا دئیے جائیں۔ لگتا ہے آنے والے چند ماہ اب وہ یہی مطالبہ کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ 2018 میں الیکشن کا طے شدہ وقت آجائے ۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ خان صاحب اپنے فیصلے کرتے وقت خود اپنی جماعت کو بھی اعتماد میں نہیں لیتے۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو تو بالکل ہی خاطر میں نہیں لاتے۔ فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے وقت انہوں نے اپنی حلیف پارٹی، جماعت اسلامی سے بھی مشورہ نہیں کیا۔نتیجہ یہ کہ ملک کی کوئی بڑی یا چھوٹی جماعت خان صاحب کے مطالبے کی حمایت نہیں کر رہی۔جماعت اسلامی سمیت پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی،شیر پائو ، مولانا فضل الرحمن اور بلوچستان کی جماعتوں نے خان صاحب کے مطالبے کو رد کر دیا ہے۔ گویا نئے انتخابات کا مطالبہ صرف پی ٹی آئی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بالفرض اگر مسلم لیگ (ن) خان صاحب کا مطالبہ مان بھی لیتی ہے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صرف قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنی اپنی جگہ موجود رہیں گی۔انہیں توڑنے کا اختیار متعلقہ وزرائے اعلیٰ کو ہے۔ اگر چاروں اسمبلیاں موجود رہتے ہوئے صرف قومی اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں تو خان صاحب کو زبردست اعتراض ہو گا۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی موجودگی میں پنجاب کی 148 نشستوں پر منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح انہیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے زیر سایہ انتخابات پر اعتراض ہو گا۔
تو گویا عملا خان صاحب کا مطالبہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی سمیت ، چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی توڑ دی جائیں۔ انگلی وہ صرف وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر اٹھا رہے ہیں، لیکن چاہتے یہ ہیں کہ چاروں وزرائے اعلیٰ بھی اسمبلیاں توڑ ڈالیں اور یوں وہ نظام لپیٹ دیا جائے جو انتخابات 2013 کے تحت وجود میں آیا تھا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خان صاحب کو انتخابی قوانین اور ضابطوں پر بھی اعتراض ہے۔ چار سال سے جاری انتخابی اصلاحات کی کو ششوں میں انکی جماعت نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ تاحال انتخابی اصلا حات کا بل 2017 حتمی طور پر منظور ہو کر ایک ایکٹ کا درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ ادھر خان صاحب کو موجودہ الیکشن کمیشن پر بھی اعتراض ہے۔ کون سا ایسا الزام ہے جو انہوں نے کمیشن کے سربراہ اور اراکین پر نہیں لگایا۔ اب اگر خان صاحب کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو لا محالہ انتخابات کی ذمہ داری موجودہ الیکشن کمیشن ہی پوری کرے گا۔ کیا خان کیلئے یہ قابل قبول ہو گا؟
ذرائع کےمطابق خود تحریک انصاف کے اندر خان صاحب کے مطالبے کو زیادہ حمایت حاصل نہیں۔ وہاں یہ سوچ موجود ہے کہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کو خاصی برتری حاصل ہے۔ نواز شریف کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور انہیں ہمدردی کا ووٹ بھی ملے گا۔ حلقہ 120 میں اگر دو نئی جماعتوں کو ملنے والے 14000 ووٹ بیگم کلثوم نواز کے کھاتے میں ڈال دئیے جائیںتو فرق تقریبا وہی بن جاتا ہے جو 2013 میں تھا۔ سندھ ، کراچی میں بھی تحریک انصاف جڑیں نہیں بنا سکی۔ پنجاب میں بھی، پی پی پی کے چند چہروں کو شامل کر لینے کے باوجود کسی بڑے معجزے کی توقع عبث ہے۔ پارٹی کا ایک حلقہ چاہتا ہے کہ مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کو موقع ملے گا کہ وہ سینیٹ میں اپنے ارکان کی تعداد بڑھا لے۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں اسے سات سینیٹر بنانے کا موقع مل گیا۔ اب وہ مزید سات سینیٹرز بھیج کر یہ تعداد 14 تک بڑھا سکتی ہے۔ مارچ 2018 سے پہلے انتخابات کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ معاملہ بھی بے یقینی کی نذر کر دیا جائے۔
مسلم لیگ(ن) بلکہ کسی بھی جماعت نے خان صاحب کے مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی تازہ پریس ٹاک میں خان صاحب کے مطالبے کا حوالہ دئیے بغیر صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ انتخابات 2018 میں ہونگے، جب عوام ایک بڑا فیصلہ دیں گے۔ لگتا یہ ہے کہ گو نواز گو کے بعد خان صاحب کے اسلحہ خانہ میں کوئی ہتھیار نہیں رہا۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ اب کیا مطالبہ کریں؟ کس طرح خود کو ایک متحرک سیاسی کردار کے طور پر زندہ رکھیں؟ اسی پریشانی میں انہوں نے فوری انتخابات کا نعرہ تو ضرور لگا دیا ہے لیکن انہوں نے غالبا خود بھی اس نعرے کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ نہیں لیا ۔ بہتر ہو گا کہ وہ ساری توجہ انتخابی اصلاحات پر مرکوز رکھیں اور انتخابات کیلئے 2018 کا انتظار کر لیں۔ اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے۔

تازہ ترین