• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاملات دن بدن گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، متعلقہ لوگوں کو عقل ہی نہیں آرہی، ان سب کو جو حالات بہتر کر سکتے ہیں، خواہ کہیں بھی ہوں، کوئی بھی ہوں۔ یوں زیادہ دن نہیں چل پائے گا۔ بہت خرابی اب تک ہو چکی ہے، اگر آپ کو کوئی اندازہ ہو تو۔ مزید کی گنجائش روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ یونہی ہوتا رہا تو خرابی اُس حد تک پہنچ جائے گی جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کا تجربہ نہ ہو۔ اس ملک اور اس کے عوام نے بہت برے دن دیکھے ہیں، مختلف لوگوں کے ہاتھوں۔ باقی سب تاریخ ہے۔ پاکستان کو اب اُن سے بچا نا ہی سب کی ذمہ داری ہے، مکرر عرض ہے، سب کی۔
عوام کو تو سمجھ بھی نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ سب لوگوں نے تلواریں سونت رکھی ہیں، ایک دوسرے پر۔ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے، اخلاق کی کسی حد تک گر سکتے ہیں۔ سیاستدان اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں، انہیں جس طرف توجہ دینی چاہیے، اس کے سوا ہر معاملے میں وہ بہت سر گرم ہیں، فعال ہیں۔ کسی بھی دن ان کی باتیں سنیں تو لگتا ہے دو دشمن ملکوں کے لوگ ہیں، ایک دوسرے کی جان کے درپے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں، کہیں بھی با شعور لوگ اس طرح کا رویہ نہیں رکھتے۔ درست کہ ہر ملک میں حزب اختلاف ہوتی ہے اور اس کا کام حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ مقصد اس کا تو جمہوریت نے، اس کے نظام نے،طے کردیا ہے: عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا، حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنا تاکہ درست سَمت میں معاملات چلائے جا سکیں۔ یہی جمہوریت کا اصل مطمحِ نظر ہے۔ مگر یہاں یہ سب کچھ نہیں ہورہا۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا جمہوری طریقہء کار سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی کھال کھینچنا البتّہ کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ محسوس ہو تا ہے، سب کو، ہر روز۔
اس ناپسندیدہ اور افسوسناک کام میں سب ہی ملوث ہیں، وہ بھی جن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے اور وہ بھی جن کا نام نہیں لیا جاتا۔ عدلیہ پر ہمیشہ اعتماد کا اظہار کیا جاتا رہا، حالانکہ جسٹس منیر اور ان کے کئی جانشینوں نے اس اعتماد کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ نظریۂ ضرورت کو، کئی بار میں سے صرف ایک بار دفن کیا گیا، وہ بھی جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کے خاتمہ کہ بعد۔ پھر حسبِ ضرورت زندہ کرلیا گیا۔ اور یہ سب عدلیہ کے مختلف ادوار میں ہوا۔ یونہی یاد آیا، نامور وکیل، اے کے بروہی، عاصمہ جہانگیر (جیلانی) کے وکیل تھے۔ انہوں نے جسٹس منیر کے دریافت کئے گئے نظریۂ ضرورت کے خلاف دلائل دیئے، عدالت نے انہیں تسلیم کرلیا، سقوط ڈھاکہ کے بعد جنرل یحییٰ معزول کردیئے گئے تھے، تب عدالت نے انہیں غاصب قرار دیدیا۔ کچھ دنوں بعد بروہی صاحب، نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، درخواست گزاربیگم نصرت بھٹو تھیں۔ بروہی صاحب سرکار کی طرف سے پیش ہو رہے تھے۔ ایک بار پھر وہ مقدمہ جیت گئے۔ عدلیہ نے اس بار اقتدار پر جنرل ضیاء کے قبضے کو جائز قراردیا، جبکہ ابھی نظریۂ ضرورت کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔ پھر تخت پر یہی نظریہء ضرورت جلوہ افروز رہا، اب تک ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس نے عدلیہ سے اسی نظریۂ ضرورت کے حق میں فیصلہ لیا۔ جنرل ضیا ء کے گیارہ سالہ اقتدار کے بعد جمہوریت آئی۔ 1988 سے 1999 کے گیارہ برسوں میں، منتخب حکومت اور منتخب پارلیمان چار مرتبہ برطرف کی گئی، چاروں بار عدلیہ نے اس برطرفی کو جائز قرار دیا۔ پھر بھی عوام عدلیہ کا احترام کرتے رہے ہیں کہ یہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور انصاف کے حصول کا آخری ذریعہ۔ کئی بار اختلاف کرنے والے ججوں کو ان کے عہدوں سے الگ کرکے ایسے جج متعین کئے گئے جو آمروں کی خواہشات کے مطابق فیصلہ دے سکتے تھے۔ عدلیہ کی تاریخ میں ایسے کئی حقائق درج ہیں۔ کیا انہیں درست کرنا کسی کی ذمہ داری تھی یا ہے؟
اُدھر کچھ عرصہ سے ایک اور لڑائی سی چھڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جسے کچھ حلقے سول اورسیکورٹی ادارے کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی قرار دیتے ہیں۔ اصل حقائق کیا ہیں کبھی ان کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ سول حکومت کے لوگ شور مچاتے رہتے ہیں،کبھی اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ اس میں ایک دلچسپ مرحلہ بھی آتا ہے۔ گفتگو کے دوران بات کرنے والا کہتا ہے آپ کو تو پتہ ہی ہے۔ ان سے جب کہا جائے بتائیں کون ہے تو نام کوئی نہیں لیتا۔ خود ان اداروں کی طرف سے جواب کم ہی ملتا ہے، اقدامات ہوتے ہیں اور کبھی کبھی بہت واضح نظر آتے ہیں۔ کبھی ایک ٹوئٹ کے ذریعہ، کبھی کسی اور طرح۔ بہت کچھ ہوتا رہا ہے۔ اور اب یہ جو کچھ ہوا، حیران کن ہے۔ رینجرز کیوں اچانک احتساب عدالت کے باہر تعینات ہوگئے؟ کس نے کئے؟ تا دمِ تحریر حقائق سامنے نہیں آسکے۔ الٹا یہ ہوا کہ رینجرز نے از خود پارلیمان کی حفاظت سے بھی خود کو الگ کرلیا۔ یہ دونوں کام قابل تعریف نہیں ہیں۔آخرالذّکر کام تو وہ بہت عرصے سے کررہے تھے۔ اب یہ کہنا کہ تحریری احکامات ملیں گے تو وہ پارلیمان کی حفاظتی ذمہ داری ادا کریں گے، درست نہیں لگتا اور بے جواز ہے۔ اب تک وہ کس بنیاد پر پارلیمان کی حفاظت کررہے تھے؟ اور کس اختیارکے تحت؟
خود سول حکومت کا معاملہ کسی بھی طرح قابل رشک نہیں ہیں۔ مثلاً، بہت سی باتوں میں سے اس تازہ ترین رینجرز والے معاملے کوہی لے لیں۔ یہ ایک انتظامی کوتاہی بھی ہو سکتی ہے، ممکن ہے جان بوجھ کر بھی کچھ کیا گیا ہو۔ جو کچھ ہوا ٹھیک نہیں ہوا۔ مگرکیا وفاقی وزیر داخلہ کو اسی طرح، سب کے سامنے، وہ جو کہتے ہیں انگریزی میں، اپنے گندے کپڑے سڑکوں پر دھونے چاہیے تھے؟ بالکل نہیں۔ کوئی بھی شاید ہی اس کے حق میں کوئی دلیل دے سکے۔ امور مملکت اس طرح نہیں چلائے جاتے۔ ان کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ دو اداروں میں کشیدگی ہو تو انہیں کسی مناسب فورم پر طے کیا جاتا ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے بات ہوتی ہے۔ یوں نہیں ہوتا، جو ہوا وہ درست نہیں ہوا۔ ادھر پارلیمان میں ایک متنازع قانون منظور کراتے ہوئے، ایک ایسی ترمیم بھی کر ڈالی گئی جو اگر نظروں سے اوجھل ہوجاتی تو ملک بھر میں آگ لگانے کے لئے کافی تھی۔ ختم نبوّت پر حلف کو ایک اقرار نامہ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس ترمیم کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہ کس نے کیا؟ اس کی بھی اور رینجرز کے معاملے کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اور یہ مطالبہ تو ہمیشہ ہی کیا جاتا ہے کہ حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔
لگتا یوں ہے کہ سب ہی جگہ مختلف قسم کی خرابیاں موجود ہیں۔ مشکل میں یہ ملک ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ مل کر کوئی حل تلاش کیا جائے؟ سیاستدان اپنے اپنے رویوں اور کردار کا جائزہ لیں، دوسرے ادارے اپنا۔ پھر سب مل بیٹھیں۔ کھلے دل سے معاملات کو ٹھیک کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ مل جل کر دیکھیں کہ غلطیاں کہاں ہوئی ہیں؟ کس سے ہوئی ہیں؟ کون اپنی حدود سے نکل گیا؟ کس نے دوسرے کے اختیارات کم کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی؟ ماضی کو سامنے رکھ کر مکالمہ کرنا اس لئے شاید ضروری ہو کہ ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے لئے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ ہر ادارہ اپنے اختیارات اپنی حدود میں رہ کر استعمال کرے۔ بالا دستی سول کی اچھی ہے نہ کسی اور کی، صرف آئین بالا ہے۔ فوج اپنے رویہ کا جائزہ لے، سول اپنے معاملات دیکھیں،اور معذرت کے ساتھ، عدلیہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس کے کسی عمل سے اُس پر انگلی نہ اٹھے۔ یہ ملک مزید محاذ آرائی کا متحمل نہیںہوسکتا۔ آس پاس شدید خطرات منڈلا رہے ہیں۔ مل جل کر ہی ان سے نمٹا جا سکتا ہے؎
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

تازہ ترین