آج کا دن میری زندگی کے عبرتناک ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ میری شامت اعمال مجھے عین اس وقت خیبر پختونخواہ کی طرف گھیر لائی جب دریائے کابل ابھی ترنگ میں آیا ہی تھا۔ امیر مقام، جسے ہر مناسب بات ہمیشہ انتہائی نامناسب موقع پر ہی سوجھتی ہے، رات کو میرے ہوٹل آیا اور حسب معمول ایک احمقانہ سی بات کرکے چلا گیا۔ بات یہ تھی کہ اگر میں اتفاق سے اس صوبے کے سفر پر نکلا ہی ہوا ہوں تو مجھے کم از کم ایک دن سیلاب زدگان کی مزاج پرسی کے لئے ضرور مختص کرنا چاہئے، میں نے سوچا کہ چلو ایک آدھ دن کی کون سی ایسی بات ہے اور پھر ویسے بھی یہ سفر لینڈ کروزر پر کرنا تھا کوئی کھوتی ریڑی پر تو نہیں کہ جس سے پریشانی ہوتی۔ میں نے حامی بھرلی اور ٹھیک اسی لمحے سے امیر مقام مجھے زہر سے بھی برا لگنے لگا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی اگلے پیرے میں ملاحظہ ہو۔
جونہی ہماری لینڈ کروزر دریائی علاقے میں داخل ہوئی، دریائے کابل کا پانی گاڑی کے اندر تک جا پہنچا۔ امیر مقام نے تو ہاسے ہاسے میں ڈیش بورڈ سے دوچار مچھلیاں بھی پکڑ لیں ہم سب کا خیال ہے کہ وہ ساری ”مچھلیاں“ وہیں بیٹھا بیٹھا کھا گیا تھا اور کسی کو کانوں کان صلح نہیں ماری۔ پیچھے بیٹھے اس کے گن مین نے ایک مگر مجھ بھی پکڑا تھا، نجانے اس بدنصیب کے ساتھ (مگر مچھ کے ساتھ، گن مین کے ساتھ نہیں) کیا سلوک ہوا ہوگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میرے ڈرائیور نے آہِ سرد کھینچتے ہوئے اطلاع دی کہ میری نئی لینڈ کروزر کا انجن سیز ہوگیا ہے۔ میں نے غصے سے امیر مقام کی طرف دیکھا اور دل سے بے ساختہ بد دعائیں نکلیں مگر اس پر ایک نے بھی اثر نہ کیا نجانے یہ شخص کس میٹریل سے بنا ہے کہ اس پر نہ تو ”بمپ“ اثر کرتا ہے اور نہ ہی بددعا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ شخص اب تک تقریباً نصف درجن خودکش حملوں سے زندہ سلامت بچ چکا ہے بلکہ دوچار حملہ آوروں کی تو جیکٹ بھی اس نے خود پھاڑی تھی۔ بہرحال، ایک تو اس کا قد بت کوئی ”یاراں“ کوں فٹ ہے اوپر سے وزن میری لینڈ کروزر سے بھی زیادہ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو انجینئر بتاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کوہستانی زبان میں کسی انتہائی قدآور مخلوق کو انجینئر انجینئر کہہ کر چھیڑتے ہیں۔
بہرحال، ہم بے یار و مددگار بیٹھے، شدید سیلاب میں گھرے غیبی امداد کا انتظار کرنے لگے۔ ان لوگوں نے تو پھر ”مچھلیاں“ اور مگر مچھ وغیرہ کھا پی کر کچھ دال دلیہ کر لیا تھا، میرا البتہ بھوک سے برا حال تھا۔ اللہ ماری ”مچھلیاں“ بھی امیر مقام کے ڈر سے اب گاڑی کے نزدیک نہیں پھٹک رہی تھیں۔ میرا شوگر لیول بھی نہایت خطرناک حد تک لو ہوتا جا رہا تھا۔ صوفی چونکہ ایک اچھا تیراک بھی ہے، اسے فوری طور پر خوراک کا بندوست کرنے قریبی گاؤں روانہ کیا تاکہ بھیک وغیرہ مانگ کر ہی کچھ لے آئے۔ عین اس وقت ایک ٹرک ہمارے پاس آن کر رکا۔ اس کا ڈرائیور امیر مقام کا غالباً کلاس فیلو رہ چکا تھا۔ وہ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے، گالیاں دیتے اور گلے ملتے ر ہے۔ امیر مقام نے خوش ہو کر مجھے بتایا کہ اللہ نے سن لی ہے، آیئے ٹرک حاضر ہے اس پر تشریف لی جایئے۔ دل تو میرا چاہا کہ رکھ کے ایک دوں اس کی کنپٹی پر کہ ہے ٹرک… مگر خوش اس طرح ہو رہا ہے جیسے امریکی سفیر نے ہمارے لئے چنوک ہیلی کاپٹر بھیج دیا ہے۔ خیر، ہم طویً و قرہاً ٹرک پر چڑھ گئے۔ امیر مقام کے دوست نہایت خوش اخلاق اور مہمان نواز تھے سب سے پہلے تو انہوں نے ہم سب کی خاطر مدارت قہوے اور کشمش سے کی۔ اس کے بعد چرس وغیرہ کا دور شروع ہوا میں نے تو معذرت کی مگر بیچارہ صوفی بہت یاد آیا۔
ہم سیلاب زدگان کے لئے جو کپڑا لتا، کمبل ، رضائیاں اور تکئے وغیرہ اپنے ہمراہ لائے تھے، وہ تو میری لینڈ کروزر میں ہی پڑے رہ گئے ، البتہ ٹرک میں جو جو کچھ پیچھے لدا تھا، ہم پیٹیوں کی پیٹیاں غریب اور بے سہارا عوام کی طرف اچھالتے چلے گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ ٹرک والے احباب بھی اسی نیک کام پر نکلے ہوئے ہیں بہرحال جب ہم گاؤں پہنچے تو ٹرک ڈرائیور نے بیک مرر میں مجھے اور چند ق لیگی قائدین کو پیٹیاں بانٹتے دیکھ لیا۔ اس نے ٹرک ایک طرف کھڑا کرکے سب سے پہلے تو ہمیں اطلاع دی کہ پیٹیوں میں کروڑوں مالیت کی سمگل شدہ کراکری تھی جو سیلاب زدگان کے کسی کام کی نہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو یہ فیاضیہم کس سے پوچھ کر کر رہے تھے؟ قریب ہی تھا کہ ہمارے میزبان ہم میں سے کسی ایک کو پکڑ کر کوئی قابل ذکر گستاخی کرتے، کہ صوفی کسی گلی کی نکر سے برآمد ہوا۔ اس بیچارے نے گلے میں ایک توڑا نما چیز لٹکا رکھی تھی جس میں اس نے آٹا، سوکھی روٹیاں اور خشک سالن وغیرہ ڈال رکھا تھا۔ میں اس کی پرفارمنس سے بے حد متاثر ہوا کہ فقط دو گھنٹے میں اس نے تقریباً بیس کلو وزن کے برابر اجناس اکٹھی کر لی تھیں۔ زیادہ تر مال بھیک کا ہی لگتا تھا البتہ پیتل تانبے کے برتن دو ایک گھڑیاں، ایک ٹیپ ریکارڈر، چار موبائل فون اور ایک ویڈیو کیمرہ بھی اس توڑا نما چیز سے برآمد ہوئے جن کے بارے میں صوفی نے فقط آئیں بائیں شائیں ہی کی مگر میں سمجھ گیا۔
ٹرک والوں کے تیور دیکھ کر صوفی کو بہت غصہ چڑھا۔ اس نے نہایت حقارت کے ساتھ ان سب کو للکارا اور مردانہ وار مقابلے کے لئے پکارا۔ بس پھر کیا تھا ان کمبختوں نے بیچارے صوفی کو ”پالمیاں“ لیا اور کافی دیر تک اس کو سیلابی پانی اور شدید بارش میں ”دھوتے“ رہے۔ حتیٰ کہ اس قسمت مارے کو نمونیا ہوگیا۔ بہرحال قصہ مختصر یہ میری زندگی کا عبرتناک ترین دن تھا۔
نوٹ: آئندہ ”سیلابی ڈائری“ میں ملاحظہ فرمایئے احوال شہباز شریف کی موٹر سائیکل ، گیلانی کی کشتی اور صدر زرداری کی ٹرالی کا!!