اٹھارویں صدی میں قائم ہونے والے’ میوہ شاہ قبرستان کو کراچی کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی ’آرام گاہ‘ تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس قبرستان میں مسلمان ہی نہیں ، عیسائی اور یہودی بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔
جب آپ گارڈن سے ریکسر لائن کی طرف آتے ہیں تو الٹے ہاتھ کی جانب میوہ شاہ قبرستان نظر آتاہے ۔ اسی کا ایک حصہ ’مارواڑی سلاوٹ برادری‘ کے لئے مخصوص ہے۔ یہ قبریں دور سے ہی آپ کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں ۔
یہ قبریں چوکنڈی اور مکلی کے قبرستان کی طرح بڑی بڑی تو نہیں لیکن پتھروں پر کی گئی کاری گری کم و پیش ویسی ہی ہے۔ یہاں بہت سی قبریں سو ، سو سال اور کچھ اس سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔انہی قبروں میں سے ایک قبر کے کتبے پر 1840 کا سن کندہ ہے ۔
عرصہ درازگزرجانے کے باوجود ان قبروں اور خاص کر کتبو ں کی آب و تاب مانند نہیں پڑی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سلاوٹ برادری نے اپنے بزرگوں کی قبروں اوران کے ورثےکی ہرممکن حفاظت کی ہے۔
’ سلاوٹ برادری‘ یعنی سل بٹے بنانے والے یاپھر ’سنگتراش‘ ۔ اس برادری کے زیادہ تر لوگوں کا تعلق راجستھان کے شہر جیسلمیر سے ہے ۔ وہ پہلے پہل’ میروں‘ کے دور میں اور پھر انگریزوں کے دور میں سندھ منتقل ہوئے ۔
کراچی میں انگریزوں اور پارسی کمیونٹی نے ان کے ہنر کو پہچانتے ہوئے ان سے کام لیا ۔ اسی لئے اس دور کی خاص طرز تعمیر آج بھی اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔
اس قبرستان کے کتبوں کودیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ پتھر کو تراش خراش کر خوبصورت محرابوں اورمختلف ڈیزائینوں میں بدل دینے والے ہاتھوں نے کس فنکاری کے ساتھ یہ ہنر قبروں اور کتبوں پر آزمایا ہے۔ اس برادری کا فن کراچی کا تاریخی ورثہ اور شناخت بن چکا ہے ۔
سلاوٹ برادی سے تعلق رکھنے والے صحافی فرید ماجد ساٹھی کا کہنا ہے کہ یہ وہ کمیونٹی ہے جس نے کراچی کی پرانی عمارتوں کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کیا ۔ سخت اور بے جان پتھر کو اس خوبصورتی سے تراشا کہ اس میں جان پڑ گئی ۔
یہ ماہر کاری گرایک خاص انداز سے چھینی پکڑتے اور پتھر پر نقش بناتے چلے جاتے اور ان کی محنت کی بدولت پرانے کراچی کی خوبصورتی اپنے کمال کو پہنچی ۔
ماجد کے بقول ’سلاوٹ برادری کے مزدوروں کے ہاتھوں کراچی کا بہترین آرکی ٹیکچر اور اس کی تاریخ لکھی گئی ۔میرا اشارہ میری ویدرٹاور، کے ایم سی بلڈنگ ، مہٹہ پیلس ، جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ سے لے ہندو جیم خانہ کی بہترین تعمیراور نقاشی کی طرف ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تاریخی عمارتوں میں استعمال ہونے والا لال اور سنہری یا پیلا پتھرخصوصی طور پر پنک سٹی جودھ پور اور گولڈن سٹی جیسلمیر سے منگوایا گیا۔ راج دور کی کراچی اور بمبئی کی عمارتیں دیکھیں، گوتھک اور اینگلو یورپین اسٹائل سے لے کر استعمال ہونے والا پتھر بھی ایک ہی ہے۔"
فرید ماجد صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ آپ ان قبروں کی تصاویر کو دیکھیں ۔ ان ہاتھوں نے کس کاری گری سے ان کتبوں کو تراشا ہے ۔کیا ہنر مندی اور بناوٹ نظر آتی ہے جہاں سلاوٹ کمیونٹی کے مزدروں نے دوسروں کے رہنے کے لئے بڑے بڑے گھر تعمیر کئے ۔وہیں اپنی برادی کی قبروں پر بھی اپنے ہنر کے جوہر دکھا کر ان کو امر کر دیا ۔‘
قبرستان کے گورکن شاکر علی سے قبرستان کی سب سے قدیم قبر کے بارے میں دریافت کیا تو ہمیں وہ ایک قبر کے پاس لے گئے جس پر میری ویدر ٹاور کی شکل کا کتبہ تراشا گیا تھا اور اس کے کتبے اور قبر پر کندہ تھاکہ "سلاوٹہ جماعت کے مایہ ناز مستریوں نے یہ ٹاور ایک سال کے عرصے میں1848 میں تعمیر کیا یعنی یہ قبر ابراہیم ولد نبی بخش کوتوال سنگ تراش کی تھی جس کے ہاتھوں نے کراچی کی پہچان میری ویدر ٹاور کو تراشا اور حسن بخشا۔ سلاوٹ برادری کااپنے ماہر کاری گروں کو سلام پیش کرنے کا یہ طریقہ بہت مختلف اور منفرد ہے ۔
پورے قبرستان میں ہی جابجا قدیم اور سنگ تراشی کے باکمال فن پارے نظر آرہے تھے لیکن کئی قبریں تو آپ کو پوری قوت کے ساتھ اپنی طرف کھنچتی ہیں اور آپ کچے دھاگے کی طرح کھنچے چلے آتے ہیں جیسے کئی قبر وںکے کتبوں پرسفید سنگ مرمر استعمال کرتے ہوئے تاج محل تراش دیئے گئے ہیں ۔ اصل تاج محل بھی ایک مقبرہ ہی سہی لیکن ہے محبت کی نشانی ۔ اور محبت تو محبت ہے۔شاہ جہاں اپنی ممتاز محل کے لئے’ استاد احمد لاہوری ‘سے بنوائیں تو تاج محل اور کوئی اپنے عزیزوں کے لئے تو یہ سادہ سا کتبہ !۔ توان راج مستریوں نے بھی اس مغل مقبرے کی شبیہ کمال فن اور محبت کے ساتھ اپنے عزیزوں کی قبروں پر تراش دی ہے ۔
یہ ہی نہیں کئی کتبوں پر جیسلمیر کے محلات کے جھرونکوں ، محرابوں اور پھولوں کے مختلف اسٹائل بھی نظر آتے ہیں ۔ قدیم قبروں کی طرز تعمیر کی طرح یہاں عورت مرد کی کوئی خاص نشانی نظر نہیں آتی ۔ ہاں بڑی اور پرانی قبروں میں سرداری اور مالداری کا عنصر زیادہ نمایاں ہے ۔
صدی گزرنے کے باوجود آج بھی ولی محمد جیون ماروڑی کی قبر پر عمر اکیاسی سال کے ساتھ انتقال کا سال دسمبر 1901 کندہ ہے ۔ یا پھر مٹھو والا فیملی کے جد امجد مٹھو سلطان ولد سرطو اور تاریخ وفات 1906 کی قبر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اگر کئی قبروں پر چاند تارا نظر آتے ہیں تو کہیں صراحی اور پانی کے جگ جیسے برتن کی شکلیں حیران کر دیتی ہیں ۔ کئی پر لال یا پھر نسبت تیز رنگ پھیر دیا گیا ہے لیکن ناجانے کیوں!
جس طرح کراچی کی قدیم عمارتیں اپنے عہد کی ترجمان ہیں،اس ہی طرح اس دور کی قبریں بھی خاص اسی انداز کے ساتھ تعمیر کی گئی ہیں ۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی کی قدیم قبریں پیلے پتھر پر کندہ کاری گئی ہے لیکن ستر اور اسی کے بعد سے ان قبروں کی بناوٹ میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔
چالیس پچاس سال پرانی قبریں زیادہ تر سیمنٹ اور سنگ مر مر سے آراستہ ہیں ۔اس بارے میں صحافی فرید ماجد کا کہنا ہے کہ سلاوٹ برادری کی نئی نسل اس طرف نہیں آئی۔ انھوں نے دوسرے ہنر تلاش کر لئے ہیں لہذا اب نہ ان کاموں کے قدر دان رہے اور نہ کرنے والے فنکار ہاتھ۔