میرا اس سلسلے کا پہلا کالم پچھلے ہفتے شائع ہوا تھا، اس کالم کا عنوان تھا ’’کیا بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے تعلقات کشیدہ رہے؟‘‘میں نے اس کالم میں بھی اس بات کی وضاحت کی تھی کہ مجھے اس موضوع پر اس وجہ سے کالم لکھنا پڑرہا ہے کہ کئی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس سلسلے میں جو تاثر قائم ہے وہ کافی حد تک درست نہیں ہے۔ پچھلے کالم میں، میں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ میر مرتضیٰ بھٹو کی انسیت اور اپنے پن کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا تھا۔ اس کے بعد میں میر مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اپنےمکالمے کا ذکر کررہا تھا تو کالم کیلئے اخبار میں مخصوص Space ختم ہورہی تھی۔ لہٰذا مجھے بات وہیں ختم کرنی پڑی۔ اس کالم میں اس مکالمے کی تفصیلات شامل کررہا ہوں۔مگر اب چونکہ مجھے نہ فقط اس سلسلے میں ایک اور کالم لکھنا پڑرہا ہے بلکہ شاید ایک دو اور کالم لکھنے پڑیں۔ میں چاہوں گا کہ یہ جو محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں کئی حلقوں میں غلط فہمی پائی جاتی تھی کہ ان کا انداز ڈکٹیٹر والا تھا تو میں ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے حوالےسے وضاحت کرتا چلوں کہ یہ تاثر غلط اور غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس مرحلےپر میں یہ بتاتا چلوں کہ محترمہ سے میری ون ٹوون ملاقاتیں تین بار ہوئیں اور ان تینوں ملاقاتوں کا اہتمام خود محترمہ نے کیا تھا۔میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ ان تینوں ملاقاتوں میں، میں ان کی حکومت، ان کی پارٹی اور ان کی اچھی باتوں اور اچھے فیصلوں کا ذکر کرنے کی بجائے ان کی ان باتوں اور فیصلوں کا ذکر کرتا تھا جن پر مجھے اور شاید عام لوگوں کے بھی کسی حد تک کچھ تحفظات ہوتے تھے۔ میں نے ان ملاقاتوں میں ان کےایسے فیصلوں اور ان کی ایسی باتوں پر انتہائی Humble انداز میں ہی صحیح مگر اپنے اعتراضات ریکارڈ کرائے۔ خدا جانتاہے کہ ملاقاتوں کے دوران میری ان باتوں میں سے کسی پر بھی انہوں نے ایک بار بھی برا نہیں منایا بلکہ ہنس کر اپنا موقف سامنے رکھا۔ حالانکہ وہ ملک کی وزیراعظم رہیں، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ کے علاوہ وہ سندھ کے ایک انتہائی بڑے خاندان کی فرد تھیں اور برطانیہ اور امریکہ کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرچکی تھیں۔ ان کے سامنے میری کیا حیثیت تھی؟ میں ایک غریب صحافی مگر ناراض ہونے کی بجائے انہوں نے میرے ساتھ ہمیشہ اچھاسلوک کیا۔ وہ مجھے ’’فیملی فرینڈ‘‘ یا ہمارے ’’خیرخواہ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی تھیں۔ میں نے پچھلےکالم میں لکھا تھا کہ سانگھڑ کے اسٹیڈیم میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد جب نیچےوہ ایک بڑی گاڑی میں وہاں سے ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہورہی تھیں تو انہوں نے سانگھڑ پی پی کے رہنما عبدالسلام تھیم اور اس وقت ان کے دست راست مرحوم منور سہروردی کو اوپر بھجوایا اور جنہوں نےپیغام دیا کہ محترمہ نیچے گاڑی میںانتظار کررہی ہیں۔ آپ محترمہ کے ساتھ ہیلی پیڈ تک چلیں تاکہ گاڑی میں وہ آپ سے کسی خاص ایشو پر بات کرسکیں۔ دراصل ان دنوں میں نے فرنٹیئر پوسٹ میں تین Portrait لکھےتھے۔ ایک محترمہ پر لکھا تھا، ایک میر مرتضیٰ بھٹو پر اور ایک آصف زرداری پر لکھا تھا۔ میر مرتضیٰ بھٹو پر لکھے گئےپورٹریٹ میں، میں نے میر صاحب کو یہ تجویز دی تھی کہ جس طرح ہندوستان میں اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی کانگریس کے یوتھ ونگ کو آرگنائز کررہے تھے۔ اسی طرح وہ بھی پاکستان لوٹنے کے بعد پیپلزپارٹی کے یوتھ ونگ کو آرگنائز کرنے کی ذمہ داری سنبھالیں۔ محترم آصف زرداری کے بارے میں لکھے گئے پورٹریٹ میں، میں نے ان کو تجویز دی تھی کہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں ان کا وہ کردار ہونا چاہئے جو اس وقت برطانیہ کی رانی کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا کا تھا۔ جہاں تک محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں لکھے گئے پورٹریٹ کا تعلق ہے تو اس میں دیگر باتوں کے علاوہ ان کی شادی کےبارے میں بھی کچھ لکھا تھا۔ جب میں نیچے پہنچا تو محترمہ اگلی سیٹ پر بیٹھی تھیں، پچھلی سیٹ پر مجھے بٹھایا گیا، جب گاڑی چلی اور محترمہ بات کرنے لگیں تو مجھے وہ کسی حد تک دکھی لگیں۔ انہوںنے میری طرف دیکھتےہوئے کہا کہ مغل صاحب، جب آپ میرے بارے میںیہ پورٹریٹ لکھ رہے تھے تو کاش اس سے پہلے آپ مجھ سے بات کرتے تو میں شادی کے حوالے سے کہتی کہ میرے لئے شادی اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ میرا اپنا گھر بھی ہو۔ میں سمجھ گیا کہ وہ یہ بات کیوں کررہی تھیں۔ دراصل ان دنوں جب وہ ایک بار بیگم بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو سے ملنے کیلئے لاڑکانہ میں بھٹو خاندان کی رہائش گاہ ’’المرتضیٰ‘‘ پہنچیں تو انہیں وہاں آنے نہیں دیا گیا اور انہیں مرتضیٰ بھٹو کے کارکنوں کے زوردار منفی نعروں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ واپس لوٹ آئیں۔ اب میں اس سوال کا ذکر کروں گا جو میں نے ہیلی پیڈ پر پہنچنے کے بعد اس وقت کیا۔بشمول آصف زرداری سارا مجمع محترمہ کی ہدایات کے تحت پیچھے ہٹ گیا تھا،صرف ہم دونوں کھڑے تھے۔ محترمہ بات کا انتظار کررہی تھیں مگر میرے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ محترمہ کو کہنا پڑا کہ مغل میں آپ کی بات کی وجہ سے رک گئی ہوں، ہمارے پاس وقت بہت تھوڑا ہے، ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مورو پہنچ کر وہاں آصف زرداری کی حمایت میں جلسہ عام سے خطاب کرنا ہے۔ آخر میں نے ہمت کرکے ان سے سوال کیا، نہ فقط سوال ترش تھا مگر میرا لہجہ بھی کسی حد تک سخت تھا۔میں نے ان سے انگریزی میں سوال کیا کہ محترمہ، میں آپ سے یہ معلوم کرسکتا ہوں کہ آپ کی پارٹی لاڑکانہ کی صوبائی نشست کیلئےہر ’’ایرے غیرے نتھو خیرے‘‘ کو ٹکٹ دیتی ہوئی نظر آرہی ہے، اگر آپ کی پارٹی کے پاس ٹکٹ نہیں ہے تو آپ کے خونی رشتے کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کیلئے نہیں ہے جبکہ آپ دونوں کا باپ بھی ایک اوروالدہ بھی ایک۔ میں یہ سوال تو کر بیٹھا مگر ساتھ ہی مجھے احساس بھی پیدا ہوا کہ مجھے ایسا سخت سوال ایسے سخت لہجے میں نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جواب میں محترمہ نے غصے میں آنے کی بجائے حیرت زدہ ہوکر کہا آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا ’’محترمہ خدا جانتا ہے کہ یہ میری ایماندارانہ رائے ہے۔‘‘اس مرحلے پر مجھے محترمہ کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ مغل میں میر کی بڑی بہن ہوں، جب سے وہ پاکستان لوٹے ہیں،ہر ’’ایرے غیرے نتھو خیرے‘‘ کو فون کررہے ہیں، فون نہیں کررہے ہیں تو اپنی بڑی بہن کو، اس کے بعد انہوں نے انتہائی دکھ بھرے انداز میں اس سلسلے میں اور بھی وضاحتیں کیں۔ اچانک وہ چند سیکنڈ کیلئے خاموش ہوکر مجھے گھورنے لگیں اور پھر کہا اچھا، مغل میرے اور میر کے درمیان آپ Mediate کرائیں۔ یہ سن کر مجھے اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔