• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ ٹوئٹس واپسی سے شروع ہونے والا معاملہ نوازشریف کی نااہلی پر بھی تھم نہیں سکا۔ہر آنے والے دن کے ساتھ تلخیو ں میں اضافہ ہورہا ہے۔مغربی ایجنڈا پایہ تکمیل ہونے کو ہے۔سی پیک میں روڑے اٹکانے والوں کی خواہشات پوری ہورہی ہیں۔ہم خود دنیا کو بتارہے ہیں کہ ہماری معیشت کمزور ہے۔اگر بری نہیں ہے تو اچھی بھی نہیں ہے۔پاکستان میں سیاسی حالات کشیدگی کی طرف جارہے ہیں۔درپردہ قوتوں کا مہرہ سمجھے جانے والے عمران خان نیازی کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔حتی کہ مقتدر قوتیں بھی ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اور نقصان پاکستان کا ہوجائے گا۔یہی مغربی قوتوں کا مقصد ہے۔ایک مرتبہ یہودی لابی کے زرخیز دماغ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے سوال کیا گیا کہ پوری دنیا میں جو بھی کچھ ہوتا ہے،نام امریکہ کا کیوں لیا جاتا ہے؟ ہر چیز کا ذمہ دار امریکہ کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ ہنری کسنجر مسکرائے اور کہنے لگے کہ امریکہ کا دنیا میں ہونے والے ہر واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ جو بھی اہم چیز دنیا میں رونما ہوتی ہے ،ہم اس میں اپنا کردار ضرور پیدا کردیتے ہیں۔پاناما کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔عین ممکن ہے پینٹا گون کے باسیوں کو اس اسکینڈل کا علم بھی نہ ہو مگر جب یہ منظر عام پر آیا تو انہوں نے اس میں اپنا کردار ضرور پیدا کیا۔ڈیوڈ کیمرون سے ناراض امریکی لابی نے پہلے اسے فارغ کروایاپھر سی پیک کے بڑے اسٹیک ہولڈرپاکستان کے وزیراعظم کا پتہ صاف کیا۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کا آغاز اسی روز ہو گیا تھا ،جس دن جے آئی ٹی نے مختلف ممالک کو خط لکھ کر مدد طلب کی تھی۔جے آئی ٹی کے خطوط کے جو بھی جواب دئیے گئے۔جواب دینے والے ہمارے دوست نہیں تھے۔انہیں ہم نے خود موقع دیا کہ اس پاناما اسکینڈل میں اپنا کردار ادا کریں۔آج ہم سے کئی گنا بڑی جمہوریت بھارت کی آزاد اور خود مختار سپریم کورٹ نے پاناما کیس پر تحقیقات کے لئے کمیٹی بنانے کی درخواست مسترد کردی ہے۔2016-17کا پاکستان ایک اہم موڑ سے گزر رہا تھا۔کسی بھی ملک کو پاکستان کی یہ ترقی برداشت نہیں تھی۔خلیج ممالک سے لے کر مغربی ممالک تک سب کو کمزور پاکستان پسند ہے۔گوادر کو عظیم بندرگاہ بنانے کا خواب بھلا کیسے قبول ہوسکتا تھا؟ ہم نے اسی ملک سے خط لکھ کراپنے ملک کے وزیراعظم کی تفتیش کی جو پہلے ہی افواج بھیجنے اور پھر گوادر معاملے پرناراض تھا ۔مسئلہ نوازشریف کی نااہلی یا سزا کا نہیں ہے،بلکہ مسئلہ آلہ کار بننے کا ہے۔آج ہم دشمن کو خود اپنے اوپر وار کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔پاناما کا معاملہ موخر کرکے نوازشریف کو سزا2018میں بھی دی جاسکتی تھی۔مگر جس تیزی سے نوازشریف کو باہر پھینکا گیا ،اس نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔عدالتیں ثبوتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں۔پاکستان کی عدالتوں نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا۔مگر جس شخص کو ثبوتوں کی بنیاد پر سزا سنائی گئی،کیا ثبوت فراہم کرنے والے بعض ممالک ہمارے خیر خواہ ہوسکتے ہیں؟ انہوں نے وہی ثبوت دئیے اور انہی دستاویزات کی تصدیق و اعتراض کیا ،جس سے پاکستان میں عدم استحکام کا راستہ ہموار ہو۔نواز شریف چلا گیا،آج اس کا ایک کارکن وزیراعظم ہے۔پہلے آپ نوازشریف کو سیلوٹ کرتے تھے ،آج اس کی جماعت کے ایک رہنما کو کرتے ہیں۔وہی پرنسپل سیکرٹری موجود ہے۔کابینہ اسی نوازشریف نے ترتیب دی ہے۔جو منظوری پہلے فائل پر ہوتی تھی اب واٹس ایپ پر ہوجاتی ہے۔لیکن اگر اس سارے معاملے میں کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ میرا پیارا پاکستان ہے۔
آج ہم ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔عسکری حکام سمجھتے ہیں کہ شاید سویلین حکومت ان کے خلاف ہے۔جبکہ سویلین حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عسکری ادارے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔حالانکہ ہر گز ایسا نہیں ہے۔سول اور عسکری اداروں کا آپس میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے کو مار کر بھی چھاؤں میں پھینکتے ہیں۔لیکن آج ہمارا جس سے تنازع ہے ۔وہ ہمیں چھاؤںمیں بھی کبھی نہیں پھینکے گا۔سول اور عسکری اداروں کو آج متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ہماری جنگ آج تیسرے فریق سے ہے۔جو سول عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ ہمارے پاکستان کا دشمن ہے۔جس کی ڈکشنری میں ڈو مور کے علاوہ کوئی لفظ نہیں ہے۔خدارا اپنی اناؤں کو پس پشت ڈال کر پاکستان کا سوچ لیں۔عین ممکن ہے کہ نوازشریف کو فارغ کرنے والے شاہد خاقان کو بھی گھر بھیج دیں۔اقتدار ٹیکنو کریٹ کے ہاتھوں میں دینا کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔مگر پھر معاملہ ٹیکنو کریٹ کے ہاتھ میں بھی نہیں رہے گا۔یہ سب پاکستان کو توڑنے کی سازش ہورہی ہے۔
ایسی کونسی وجہ ہے کہ ہم خود ہی اپنی معیشت کی کمزوری کا راگ الاپتے ہیں۔معیشت میں کمزوری کی بات میں وزن ضرور ہوسکتا ہے مگر ایگزیکٹیو کے ماتحت کسی ادارے کی یہ جرات نہیں ہونی چاہئے کہ وہ ایگزیکٹیو کی کارکردگی پر ببا نگ دہل رائے دیں اور کوئی روکنے والا نہ ہو۔یہ درست ہے کہ آج پاکستان کی معیشت بہت اچھی نہیں ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت 2013کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔اعداد و شمار میرے سامنے پڑے ہوئے ہیں۔جتنا دفاعی بجٹ ان چارسالوں میں دیا گیا،پاکستان کی پوری 70سالہ تاریخ میں اتنا بجٹ کبھی دس سالوں کے دوران بھی نہیں دیا گیا۔اسحاق ڈار کی کچھ معاشی پالیسیوں سے مجھے شدید اختلاف ہے ۔مگر آپ کو تو ان کا ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے آپ لوگوں کو وہ کچھ بھی دیا ،جس کی آپکی طرف سے ڈیمانڈ بھی نہیں کی گئی۔آپریشن ضرب عضب کے دوران جو بجٹ دیا گیا ہے۔پاکستان کے تمام اداروں کا بجٹ ملا کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔اگر اسحاق ڈار جیسے وزیر خزانہ سے بھی قومی ادارے ناخوش ہیں تو پھر یہ کسی سے خوش نہیں ہوسکتے۔اسحاق ڈار نے جو کچھ راولپنڈی کو دیا کاش اس کا چوتھائی بھی عوام کو دے دیتے توآج عوام ان کے لئے سڑکوں پر ہوتے۔وزیر داخلہ احسن اقبال درست فرماتے ہیں ۔مہذب معاشروں میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ادارے کا ترجمان اپنی حکومت کی کارکردگی پر کوئی رائے دے۔آج امریکی اور برطانوی پیغام رساں نظام کو لپیٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔جس شخص کی بھی سی وی مانگی جاتی ہے وہ آدھے اسلام آباد کو آکر بتاتا ہے کہ سی وی دے آیا ہوں۔خدارا اہل مغرب پر اعتماد نہ کریں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اپنے اندرونی مسائل بات چیت سے حل کریں۔ترقی یافتہ معاشروں میں فوج اور عدلیہ انتظامی طور پر چیف ایگزیکٹیو کے ماتحت ہوتے ہیں۔پاکستان میں بھی اس روایت کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین