• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
مزید یہ کہ کسی معیشت میں جی ڈی پی صرف مارکیٹ کی مجموعی پیداوار کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ اس چیز کو ظاہر نہیں کرتا کہ یہ پیداوار کیسے ہوئی اور کس طرح تقسیم کی گئی ۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک میں مسکن آور ادویات کا استعمال بڑھ جاتا ہے تو اس سے اس کے جی ڈی پی میں اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن کیا جی ڈی پی میںاس اضافے کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک ترقی کررہا ہے اور لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے ؟
یہی وجہ ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کو معاشی کارکردگی کا پیمانہ سمجھ لینادرست نہیں۔لہٰذا عوام پر پڑنے والے فلاحی اثرات کے جائزے سے معاشی ترقی کا تجزیہ کیا جاناضروری ہے ۔ اگر ہم معیشت کا مرحلہ وار تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ مشرف نے ایسی معیشت چھوڑی جسے بجلی اور انفراسٹرکچر کے شدید بحران کا سامنا تھا ۔ اس کی وجہ سے آنے والے برسوں کے دوران معاشی ترقی کی شرح کم رہی ۔ دوسری طرف پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے گزشتہ چار برسوں کے دوران بجلی ، سڑکوں، ریلوے اور کمیونی کیشن کے انفراسٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے ۔ اس سرمایہ کاری کا آنے والی حکومتیں درمیانی یا طویل مدت کے لئے فائدہ اٹھائیں گی۔ پرائس واٹر ہائوس کوپرز (Price Waterhouse Coopers) کا ایک حالیہ مطالعہ ظاہرکرتا ہے کہ موجودہ معاشی ترقی کی بنیاد پر پاکستان کا شمار 2030 ء تک دنیا کی ٹاپ بیس معیشتوں میں ہوگا۔ یہ جائزہ ’’پاکستان ویژن 2025‘‘ کے اہداف کی تصدیق کرتا ہے جو پاکستان کا شمار2025 تک دنیا کی چوٹی کی معیشتوں میں شامل کرنے کے لئے طے کیے گئے تھے ۔
مجھے یقین واثق ہے کہ جمہوریت کے تسلسل اور منتخب شدہ حکومتوں کے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی وجہ سے معاشی کارکردگی میں نکھار آئے گا۔ ہر ملک جس نے ترقی کی ہے ، اُس نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پالیسی فریم ورک میں استحکام کم از کم دوعشروں پر محیط ضرور ہو۔ یہ صرف ایک خواہش نہیں، اس رجائیت پسندی کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے ۔ دنیا کے ممتاز ترین ماہرین ِ معاشیات(Acemoglu et al, 2015) کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق جمہوریت اور فی کس جی ڈی پی کی نمو میں حقیقی مطابقت پائی جاتی ہے ۔یہ مطالعہ 1960 ء سے لے کر 2010 ء کے درمیان کچھ ممالک کے پینل سے لئے گئے مواد کا تجزیہ کرتا ہے ۔ اس تجزیے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جمہوری تسلسل مزید معاشی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ مختصر یہ کہ یہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر کوئی ملک غیر جمہوری دور سے جمہوری دور کی طرف بڑھے تو یہ اگلے دوعشروں کے دوران جی ڈی پی کی 20 فیصد زیادہ فی کس شرح نمو حاصل کرسکتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہم نے پاکستان میں کبھی بھی بیس سال تک جمہوری عمل کے تسلسل کا موقع نہیں دیا ۔ لیکن اس مرتبہ تاریخ رقم کرنی ہوگی ۔
پاکستان جیسے ایک ترقی پذیر ملک میں معیشت کو درست سمت میں چلانے کے لئے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاست دان گراس روٹ لیول سے سخت مسابقت کے بعد کہیں الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں۔ وہ عوام میں جڑیں رکھتے ہیں اور لوگ اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان مشکل معاشی فیصلے کرسکتے ہیں، جیسا کہ امدادی قیمت اور ٹیرف کے نرخوں کو حقیقت پسندبنانا۔ دوسری طرف نام نہاد ماہرین کسی پالیسی سازی کے لئے اپنے ذاتی اسٹاف تک کو قائل کرنا دشوار پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ امرمحال ہے کہ کوئی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ عوامی احتجاج کے سامنے مشکل پالیسی فیصلے کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔
پاکستان کے جمہوری نظام کی ساکھ خراب کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو بالعموم اور سیاسی قیادت کو بالخصوص ہدف بنایا اور ایک منظم طریقے سے بدنام کیا جاتا ہے ۔ سیاست دانوں کو بدعنوان قرار دے کر اُنہیں ملک کے معاشی مسائل کی وجہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بھی احساس نہیں کیا جاتا کہ اس کی وجہ سے معاشرے کا ایک حصہ جمہوری نظام سے بددل ہوسکتا ہے ، اور انتہا پسند اور دہشت گرد اس صورت ِحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ با ت واضح ہونی چاہیے کہ معاشی ترقی (جس کا تعین فی کس آمدنی سے ہوتا ہے ) اور ’’بدعنوانی ‘‘ کے درمیان کوئی دوٹوک گراف موجود نہیں۔ میں ایک سادہ سی مثال سے اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ روانڈا، سینیگال، روس اور پاکستان کی فی کس آمدنی بالترتیب 700 ڈالر، 1100 ڈالر، 1600 ڈالر اور 15,000 ڈالر ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل انڈکس برائے کرپشن کی درجہ بندی پر یہ ممالک بالترتیب 44 ویں، 61 ویں، 113 ویں اور 119 ویں نمبر پر ہیں۔
اس مثال سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ معاشی ترقی انتہائی پیچیدہ معروضات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اسے ’’بدعنوانی ‘‘ کے سادہ سے تصور کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ بنگلہ دیش اور بھار ت بھی بدعنوانی کی کم و بیش یہی صورت ِحال رکھتے ہیں، لیکن ان دونوں ممالک نے گزشتہ چند ایک عشروں کے دوران معاشی میدان میں پاکستان سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی استحکام ، امن اورترقیاتی افعال پر توجہ کا ارتکاز ہے ۔تیزتر معاشی ترقی اور بہتر گورننس کے لئے یہ عوامل لازم وملزوم ہیں۔
مندرجہ بالا معروضات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت نے کسی بھی آمریت سے بڑھ کر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔ 1973 ء کا آئین ملک کی تمام وفاقی اکائیوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے ۔ یہ پاکستان میں سماجی اور علاقائی خطوط کو داخلی طور پر باہم مربوط کرتا ہے ۔ متفقہ طور پر بننے والا یہ آئین کسی آمر یا ٹیکنو کریٹ نے نہیں، ملک کی سیاسی قیادت نے ملک کو دیا تھا ۔ حالیہ دور میں پارلیمان کی سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم منظور کی جس نے تمام صوبوں کو درکار خودمختاری کو یقینی بنایا ۔ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کامیابیاں پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی جمہوری حکومتوں کے دوران اُس وقت حاصل ہوئیں جب یہ حکومتیں سوات آپریشن ، ضرب ِ عضب اور رد الفساد کے پیچھے پوری استقامت سے کھڑی ہوگئیں۔
آئینی جمہوریت اور آئین کو تقویت دینا صرف معاشی ترقی ، داخلی ہم آہنگی اور امن کے لئے ہی ضروری نہیں، بلکہ یہ ہماری سیکورٹی کو تحفظ دینے اور ہماری مسلح افواج کے وقار کو تحفظ دینے کا بھی یقینی راستہ ہیں ۔ چنانچہ ہمارے سامنے انتخاب بہت واضح ہے :جمہوریت یا تباہی؟

تازہ ترین