• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہنزہ نگر سے چین کی سرحد تک‎: خوابوں کا سفر

پرویز قمر...

ہنزہ نگرکو خوابوں کی حسین سرزمین کہا جاتا ہے، جہاں پریاں اپنا ڈیرہ جماتی ہیں اور اونچے برف پوش پہاڑوں پر آسمان سے باتیں کرتے مارخور اپنی خر مستیوں سے دھیان ہٹاکر جب ان پریوں کو اپنی زمین پر چہل قدمی کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہوتا۔

جی ہاں، یہ گلگت بلتستان ہنزہ نگر ہے، جہاں کی نگری نگری دلفریب نظاروں سے مزین ہے اور کیا ہی خوب منظر ہوتا ہے ،جب سورج کی پہلی کرن گولڈن پیک سے ٹکرا کر اسے سونے کے روپ میں تبدیل کردیتی ہے۔ اگر غروب آفتاب کا دلکش و سہانا منظر دیکھنا ہو تو ہنزہ میں واقع قلعہ التت کا رخ کیجیے۔

وادی ہنزہ نگر، گلگت سے تقریباً 112 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔یہ وادی سطح سمندر سے تقریبا 2438 میٹر بلند ہے یہاں زیادہ تر بروشکی زبان بولی جاتی ہے۔ ہنزہ نگرکوچاروں طرف سے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں نےاپنے حصارمیں لیا ہوا ہے۔ان برف پوش پہاڑی چوٹیوں میں مشہور راکا پوشی 7788 میٹر، ھسپر پیک 7611 میٹر، الترپیک 7388 میٹر اور لیڈی فنگر 6000 میٹر قابلِ ذکر ہیں۔دنیا میں شاید ہی کوئی اتنا خوبصورت خطہ ہوگا، جہاں اس طرح کی بلند قامت چوٹیوں کا راج ہوگا۔

ہنزہ نگر ایک بادشاہی ریاست پر مشتمل خطہ تھا جہاں کے حکمراں کو ’’میر‘‘ کہا جاتا تھا۔ 1974ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے پاکستان میں شامل کروایا۔شاہراہ ریشم بھی یہی سے گزرتی تھی ،جو چین اور پاکستان کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ تھی، اب یہ شاہراہ قراقرم کی عظمت میں دھندلا چکی ہے۔ہنزہ نگر کے حکمران میر نے اپنی حفاظت اور رہائش کے لیے بلند پہاڑی پر ایک قلعہ تعمیر کروا یا تھاجو ’’قلعہ بلتت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔یہ قلعہ 8 سن عیسویں میں تعمیر کیا گیا۔

سن 2004ء میں اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتہ ورثہ کا درجہ دیا۔ قلعہ بلتت کی بناوٹ اور اندرونی ساخت یادِرفتہ کو تازہ کرتی ہے۔ قلعہ سے ہنزہ نگر کا نظارہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ ہنزہ کے گلیشیئر سے آنے والا پانی نہایت ہی صحت بخش اور معدنیات سے پُر ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق یہاں کا پانی دنیا میں شفافیت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے۔

ہنزہ نگر اپنی ہریالی اور خوبصورت برف پوش پہاڑوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔دریائے ہنزہ مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا پہلے دریائے گلگت کا حصہ بنتا ہے اور پھر دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ہنزہ نگرمیں سیب، ناشپاتی، آڑو، چیری، اخروٹ اور خوبانی کے جابجا باغات نظر آتے ہیںبلکہ یہاں کی خوبانی توساری دنیا میں مشہور ہے، اس وجہ سے اسے خوبانی کا دیس بھی کہا جاتا ہے اور خوبانی سے بنےکیک کا تویہاں کوئی ثانی نہیں۔

ہنزہ نگر کے پہاڑوں پربدھ مت سے تعلق رکھنے والی نقش و نگاری جابجا کندہ کی ہوئی نظر آتی ہے، جو تجارت کی غرض سے آنے والے افراد نے نقش کی تھیں۔ حادثاتی طور پر وجود میں آنے والی عطاء آباد، جھیل قدرت کا انمول تحفہ ہے جو علاقے کی پہچان بھی ہے۔ یہ جھیل 2010ء میں ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وجود میں آئی، جو تقریباً 21 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور گہرائی تقریباً 360 فٹ کے قریب ہے۔

لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے یہاں مختلف گائوں بھی متاثر ہوئے تھے، اس جھیل نے کم ازکم13 کلومیٹر شاہراہ کو اپنے نرغے میں لیاہوا ہے چناں چہ نقل وحمل میں شدید دشواری کا سامنا رہتاہےجس کے باعث مقامی تجارتی قافلے بذریعہ لانچ اور کشتیوں کے ذریعے 19 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شاہراہ قراقرم تک پہنچتے ہیں لہٰذا ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے حکومتِ چین نے نقل و حمل کو بلا کسی رکاوٹ جاری رکھنے کے لیے پہاڑوں کے اندر 3 ٹنل تعمیر کیے ہیںجن میں سب سے بڑے ٹنل کا فاصلہ تقریباً 7 کلومیٹر پر محیط ہے۔ ٹنل سے گزرتے ہوئے عطاء آباد کی سحر انگیزیوں کو دیکھ بھی نہیں پاتے کہ دوسرا ٹنل اپنی آغوش میں لے لیتاہے اور یہ آنکھ مچھولی کسی نعمت سے کم نہیں۔

عطاء آباد جھیل کا پانی سطح سمندر سے بلندی پر ہونے کی وجہ سے گہرا نیلا ہے، جو اپنی خوبصورتی پر بہت مطمئن ہے ۔ سفرکرتے ہوئے ہنزہ نگر سے چائنا بارڈر خنجراب پاس کرتے ہیں تو شاہراہ قراقرم مددگار و معاون ہوتا ہے۔ہنزہ کے علاقے پاسو کے سفر میں دلکش و دلفریب نظارے ہر تھوڑی دیر بعد آپ کو رکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دریائے ہنزہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ کہیں پر دریا بہت زیادہ شور مچاتا ہے تو کہیں خاموشی سے اپنا سفر طے کرتا ہے، تقریباً 45 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ گلمت پہنچ جاتے ہیں ۔

یہ سو سال پرانا تاریخی قصبہ ہے، یہاں سیاحوں کے لیے کئی ہوٹل اور ایک چھوٹا سا میوزیم بھی دلچسپی کاباعث بنتا ہے۔یہ اپنے نام کی طرح خوب صورت اور خوشبوئوں سے لبریز ایک حسین قصبہ ہے، یہاں کاقدرتی حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ گلمت سے شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے 16 کلومیٹر پر ’’پاسو‘‘ کا مشہور قصبہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔پاسو اپنے گلیشیئر اور منفرد خدوخال کی وجہ سے پاکستان، بلکہ ساری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔

یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جو شاہراہ قراقرم کے ساتھ ڈسٹرکٹ گوجال گلگت بلتستان کا صدر مقام ہے۔یہاں کا گلیشیئراپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظرآتا ہے ،جو قطب شمالی کے بعد دنیا کا ساتواں بڑا گلیشیئر ہے۔پاسو قصبے کا چپہ چپہ خوبصورتی، دلکشی و رعنائی کی ایک روشن کتاب ہے، جو دیکھنے والوں کو محو حیرت کردیتا ہے اور وہ قدرت کی ثناء کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

Tuppodan جو کہ Passu Cones کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے 6106 میٹر بلند اور قصبہ پاسو سے شمال کی جانب واقع ہے، جو اپنے منفرد خدوخال کی وجہ سے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ فوٹو گرافی کا اعزاز رکھتا ہے، یہاں کے تمام مناظر کی عکاسی لفظوں میں نہیں کی جاسکتی۔پاسو سے شاہراہ قراقرم کی بل کھاتی سڑک پر سفر کرتے ہوئے حسین نظاروں سے اپنی نظروں اور ذہنوں کو معطر کرتے ہوئے تقریباً 39 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد سوسٹ کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔سوسٹ دراصل ڈسٹرکٹ گوجال کا ایک گائوں ہے، جو پاکستان اور چین کے درمیان واقع ہے۔

یہ قصبہ پاک چین شاہراہ قراقرم پر سفر کرنے والوں کا ایک اہم پڑائو ہے۔اس مقام پر ایک ڈرائی پورٹ قائم کیا گیا ہےجو پاک چائنا تجارت کا اہم ستون ہے،یہاں چاروں طرف بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے اور بلند پہاڑوں سے عظیم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتی گاڑیاں ایک عجیب ہی منظر پیش کرتی ہیں، جب گلگت بلتستان کی حسین تتلی نما رنگ برنگی جیپیں دنیا کے آٹھویں عجوبے شاہراہ قراقرم پر سیاحوں کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے لیے محو سفر ہوتی ہیں ،کیا کمال منظر ہوتا ہے، جسے بیان کرنا ناممکن ہے۔

خنجراب نیشنل پارک سوسٹ سے شروع ہوکر پاک چائنا بارڈر تک پاکستان میں جاتا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک، پاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے، اس کا قیام 1975ء میں عمل میں آیا۔ یہ پارک سطح سمندر سے تقریباً 4000 میٹر بلند ہے، اس کے قیام کا اہم مقصد مارکو پولو بھیڑیئے اور سفید برفانی چیتے کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو بچانا ہے۔اس میں سفید چیتے، ہمالین آئی بیکس، بھورے ریچھ، لال لومڑی، مارکوپولو بھیڑیئے اور دیگر اقسام کےجانور پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ پرندوں کی بھی کئی اقسام یہاں ہیں۔

خنجراب نیشنل پارک کو دنیا کا سب سے اونچا پارک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کا کل رقبہ تقریباً 2270 اسکوائر کلومیٹر ہے۔ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی عظیم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چائنا بارڈر آجاتا ہے۔ پاک چائنا سرحد سب سے بلند ترین سرحد ہے، جس کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً 15397 فٹ بلند ہے۔پاک چائنا تجارتی آمد و رفت اسی سرحد سے ہوتی ہے اور جب چین سے تجارتی قافلوں کے ٹرک پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو یہ دلکش منظر آنکھوں کو خیرہ کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

سیاحوں کی کثیر تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔یہاں اے ٹی ایم سروس بھی میسرہے۔اس کو دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم سروس بھی کہا جاسکتا ہے ، یہ سروس منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی کام کرسکتی ہے۔پاک چائنا سرحد پر سیاح دونوں ملکوں کی فوج کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں، تاکہ ان یادگار لمحات کو زندگی بھریاد رکھاجا سکے۔

ہنزہ نگر گلگت بلتستان سے خوابوں کا یہ سفر درہ خنجراب پاک چائنا سرحد پر اختتام پذیر ہوجاتا ہے، لیکن سفر میں پائےجانے والے قدرتی رنگ، پہاڑوں کی ہیبت، دریائوں کی روانی اور پہاڑوں پر دوڑتے مارخور سب سے بڑھ کر عظیم شاہراہ قراقرم کا ساتھ جسم و روح کو نئی تازگی عطا کرتا ہے،اس سے یہ بات دل میں پختہ ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو قدرت نے اس کائنات کا خوب صورت ترین خطہ عطا کیا ۔

تازہ ترین