اس بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ نہ فقط محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی گئیں بلکہ ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو بھی شہید کردیا گیا‘ یہ سوال بھی کئی ذہنوں کو پریشان کرتا رہاکہ کیوں دونوں کے قاتل ظاہر نہیں کیے گئے؟ بہرحال مجھے اس عنوان کے تحت لکھے گئے کالموں کے اس سلسلے کا آج یہ آخری کالم لکھنا ہے تو اس کالم کی ابتدااس بات سے کرتے ہیں کہ جس دور میں یہ دونوں بہن بھائی سیاست کرتے رہے ہیں اس دور میں مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر میری یہ حتمی رائے رہی ہے کہ ہمارے ملک کے طاقتور حلقوں نے کسی طرح دونوں بہن بھائیوں کے اردگرد اپنے کچھ بندے فٹ کر رکھے تھے جن کا کام یہ تھا کہ وہ دونوں بہن بھائی کو ایک دوسرے کے قریب نہ آنے دیں بلکہ کوشش کی جائے کہ دونوں کے درمیان نہ فقط دوری اور غلط فہمیاں برقرار رہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا رہے‘ اس دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں لہذا اس دور میں اگر مختلف مقامات پر انتظامیہ کی طرف سے میر مرتضیٰ بھٹو کے لئے مشکلات پید اکی جاتی تھیں تو میر کے قریب یہ حلقے میر کے اس تاثر کو اور مضبوط کرتے تھے کہ یہ سب کچھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایات پر کیا جارہا ہے‘ اسی طرح میر جو سیاسی سرگرمیاں کرتے تھے ان کے بارے میں محترمہ کے قریب یہ حلقے محترمہ کو یہ اطلاع دیتے تھے کہ ان سرگرمیوں کا مقصد محترمہ کی حکومت گرانا تھا تاکہ میر خود پی پی پر قبضہ کرکے حکومت میں آسکیں۔ اس سلسلے میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا اس کا میں بھی کسی حد تک عینی گواہ ہوں۔ ایک بار میں ایک ویگن میں دیگر مسافروں کے ساتھ کراچی سے حیدرآباد جارہا تھا جب ہماری ویگن حیدرآباد شہر کے قریب پل تک پہنچی تو دیکھا کہ پل پر ٹریفک بند تھااور کئی گاڑیاں راستہ کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے کھڑی تھیں‘ ہماری ویگن بھی سائیڈ میں کھڑی ہوگئی اور دیگر مسافروں کے ساتھ میں بھی نیچے اتر آیا کہ دیکھوں کہ ٹریفک رکنے کی کیا وجہ ہے‘ جب میں آگے آگیا تو دیکھا کہ ایک گاڑی کو پل پر اس طرح کھڑا کیا گیا تھا کہ ٹریفک نہ حیدرآباد کی طرف سے آسکے اور نہ حیدرآباد جانے والی گاڑیاں پل کو کراس کرسکیں‘ میں ذرا آگے گیا تو دیکھا کہ رکنے والی گاڑیوں میں جو پہلی گاڑی تھی اس کے پاس میر مرتضیٰ بھٹو کھڑے تھے اور بہت مشتعل نظر آرہے تھے جبکہ بعد میں کھڑی کئی گاڑیوں میں میر مرتضیٰ بھٹو کے کارکن سوار تھے جو انتہائی مشتعل تھے اور حکومت اور خود محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف زور دار نعرے لگا رہے تھے۔ میں اور آگے گیا تو دیکھا کہ جس گاڑی سے میر مرتضیٰ بھٹو اترے تھے اس کی ڈرائیو رسیٹ پر مخدوم خلیق الزماں بیٹھے تھے‘ اسی دوران مخدوم صاحب کی بھی مجھ پر نظر پڑ گئی اور مجھے آواز دیکر کہا کہ ’’دیکھو ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے‘‘ میر مرتضیٰ بھٹو کی دلیری و بہادری تو کافی مشہور تھی اس کی مثال انہوں نے بھی دی۔ انہوں نے کارکنوں کو حکم دیا کہ وہ گاڑیوں سے باہر آئیں اور گاڑی کو اٹھا کر دریا میں پھینک دیں‘ یہ حکم ملتے ہی کارکن بڑی تعداد میں باہر روڈ پر نکل آئے اور چاروں طرف سے گاڑی کو پکڑ کر اٹھایا اور اسے دور جاکر دریا میں پھینک دیا‘ اس کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو اپنی گاڑی میں بیٹھے اور کارکن بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے جبکہ کارکن بدستور نعرے لگاتے رہے‘ اب میں اس بدنصیب دن کا ذکر کروں گا جب ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ کے نزدیک کلفٹن روڈ پر بغیر کسی اشتعال کے پولیس کی طرف سے میر مرتضیٰ بھٹو کی گاڑی جو کارکنوں کی گاڑیوں کی قیادت کررہے تھے پر گولیاں چلائی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق جب سامنے سے گولیاں چلیں تو ان کے کارکنوں نے بھی اپنی اپنی گاڑیوں سے فائرنگ کردی‘ بہرحال میر مرتضیٰ بھٹو جو اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے انہیں ایک سے زیادہ گولیاں لگیں اور وہ خون میں لہولہان ہوکر سیٹ پر ہی لیٹ گئے‘ ان کے ساتھ دادو کے ان کے پارٹی رہنما جتوئی کو بھی کئی گولیاں لگیں ۔ میں اس وقت واردات کی جگہ پر موجود نہیں تھا مگر مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق میر اور ان کا جلوس انتہائی پرامن تھا‘ وہ کسی تقریب کے بعد اپنی رہائش گاہ آرہے تھے لہذا اس سلسلے میں کوئی دو رائے نہیں کہ میر اور اس کے جلوس پر پولیس کی طرف سے فائرنگ بغیر کسی اشتعال کے کی گئی تھی لہذا اکثر کی رائے یہ تھی کہ یہ حملہ اس مقصد کے لئے کیا گیا کہ ان کا خاتمہ کردیا جائے‘ اس واقعہ کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو اور دیگر زخمیوں کو نزدیک ہی واقع مڈ ایسٹ اسپتال لے جایا گیا، اسی دوران میر مرتضیٰ بھٹو انتقال کرگئے۔اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جو اس وقت اسلام آباد میں تھیں انہیں یہ اطلاع دی گئی کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے‘ محترمہ کو یہ تو بتایا گیا کہ میر زخمی ہوگئے ہیں اور انہیںمڈ ایسٹ اسپتال میں داخل کیا گیا ہے مگر انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ میر انتقال کرگئے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو یہ خبر سن کر انتہائی پریشان ہوگئیں اور انہوں نے حکم دیا کہ ان کومیر کی حالت دیکھنے ہوائی جہاز کے ذریعے فوری کراچی جانا ہے‘ محترمہ ہوائی اڈے سے سیدھی مڈ ایسٹ اسپتال جانا چاہتی تھیں مگر آصف زرداری بھی محترمہ کے ساتھ کراچی آئے تھے‘ محترمہ کو راضی کیا گیا کہ پہلے بلاول ہائوس چلتے ہیں جہاں کچھ وقت ٹھہرنے کے بعد مڈ ایسٹ اسپتال چلیں گے۔ اطلاعات کے مطابق بلاول ہائوس پہنچنے کے بعد محترمہ ڈرائنگ روم میں آئیں جہاں ہال کی ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی دوسری طرف کھڑکی کے پاس بلاول ہائوس کے ملازم بیٹھے ہوئے تھے جو آپس میں میر مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں بات چیت کررہے تھے اور یہ آوازیں محترمہ کے کان میں پڑ رہی تھیں جب ان ملازمین نے میر مرتضیٰ بھٹو کا نام لیا تو وہ انتہائی توجہ سے یہ باتیں سننے لگیں اس وقت دونوں ملازم روکر کہہ رہے تھے کہ میر مرتضیٰ بھٹو گولیوں کی اس بارش کے بعد انتقال کرگئے ہیں اور ان کی ڈیڈ باڈی مڈ ایسٹ اسپتال کے مردہ خانے میں رکھی ہوئی ہے‘ یہ سب کچھ سن کر محترمہ چیختی ہوئی باہر نکل آئیں‘ ان کے پائوں بھی ننگے تھے اور چپل وغیرہ بھی پائوں میں نہیں تھی‘ وہ چیختی ہوئی گاڑی کے پاس پہنچیں اورڈرائیور کو بلانے لگیں‘ ڈرائیور فوری طور پر گاڑی کے پاس پہنچ گیا اور محترمہ نے اسے کہا کہ گاڑی چلائیں اور مڈ ایسٹ اسپتال چلیں‘ محترمہ ننگے پائوں گاڑی میں بیٹھ گئیں‘ وہ رو رہی تھیں‘ گاڑی کے مڈ ایسٹ اسپتال پہنچتے ہی محترمہ ننگے پائوں باہر نکل کر اسپتال کے اندر پہنچ گئیں اور پوچھتے ہوئے مردہ خانے میں داخل ہوگئیں جہاں میر کی لاش رکھی ہوئی تھی، محترمہ لاش کے قریب کوئی آدھے گھنٹے تک کھڑی روتی رہیں اور چیختی رہیں‘ ایک بات اور بھی میں یہاں ریکارڈ پر لاتا چلوں۔ یہ بات مجھے پی پی کے ایک سینئر رہنما نے بتائی‘ انہوں نے بتایا کہ المرتضیٰ لاڑکانہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم بھٹو کے ساتھ تعزیت کرنے کیلئے صدر فاروق لغاری آئے ہوئے تھے‘ بیگم بھٹو تو ہوش میں نہیں تھیں‘ وہ تو ویسے بھی کافی عرصے سے بیمار تھیں مگر میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بارے میں سننے کے بعد وہ اپنے سارے ہوش گنوا بیٹھی تھیں۔ بہرحال اس پی پی رہنما نے بتایا کہ جب صدر فاروق لغاری محترمہ بے نظیر بھٹو سے تعزیت کیلئے وہاں بیٹھے ہوئے تھے تو محترمہ چیخ چیخ کر صدر فاروق لغاری کو کہہ رہی تھیں کہ جب میں نے احکامات دیئے ہوئے تھے کہ میر پر کوئی بھی گولی نہ چلائے تو پھر کس نے میر پر گولی چلائی؟۔