• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا عوام امرت دھارا ہیں؟
خبر ہے، نواز شریف نے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہمارے ملک میں عوام، حکمرانوں، سیاستدانوں، طالع آزمائوں، نام نہاد ملائوں کے لئے امرت دھارا ہیں، کہ جب بھی کوئی مرض لاحق ہو، مصیبت کا سامنا ہو شہرت عزت اقتدار حاصل کرنا ہو تو عوام کو عدلیہ بنا لیا جاتا ہے، اور عدلیہ سے معاملہ ہٹا کر عوام کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے، جبکہ ملکی عدالتیں عوام ہی کے مسائل حل کرنے کے لئے قائم کی جاتی ہیں، اس لئے وہ عوامی ہوتی ہیں، خواص یا اشرافیہ اپنے پھوڑے پھنسی کا علاج عوام سے کراتے ہیں اور عوام کے زخم ہیں کہ بھرتے نہیں اور بزبان غالب پھر بھی اپنے ’’خیر خواہوں‘‘ ہی کو بزبانِ غالبؔ دعا دیتے ہیں؎
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
ملک کی سب سے بڑی عدالت کو تسلیم نہ کرنے کا اس سے بڑا اقرار کیا ہو گا کہ نواز شریف اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے جانا چاہتے ہیں جبکہ عوام اپنے مقدمے عدالتوں میں لے جاتے ہیں، سچ کہا تھا ’’صاحباں‘‘ نے کہ؎
سُنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے
عوام کی قسمت کا ستارہ جس پاتال میں ہے، بھلا وہ سوائے اس کے اور کیا کر سکتے ہیں کہ ایک جونک کو اتار پھینکیں اور دوسری جونک چپکا لیں، عوام بھی شاید منیر نیازی کے مسلک پر ہیں کہ؎
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مَرن دا شوق وی سی
دارالعوام میں عوام کو بھول جاتے ہیں جب وہاں سے نکالے جاتے ہیں تو پھر سے عوام کے گوڈوں گٹوں میں برپا عدالت میں اپنا کیس لے جاتے ہیں اور پھر سے ان کو مسلط ہونے کا حق دے دیتے ہیں۔
٭٭٭٭
اسٹیبلشمنٹ کی شامت کیوں؟
وہ تمام حریف جو اپنی اپنی ناکام سیاست کی دلدل میں پھنسے ہوئے یہی کہہ رہے ہیں کہ انہیں ’’مڈ والکینو‘‘ میں اسٹیبلشمنٹ نے دھکا دیا تھا، ہمارا خیال ہے کہ جو اس ملک میں پہلے اسٹیبلشمنٹ کیا کرتی تھی، اب کیوں ایک طرف ہو گئی ہے، یہ سارے سیاسی طالع آزما اپنی اپنی بولی میں اسٹیبلشمنٹ کو دعوت آب و ہوا دے رہے ہیں، مگر وہ اب ان کی آواز پر کان نہیں دھرتی، ہر جھوٹ کو اسٹیبلشمنٹ سے با جماعت کیوں منسوب کیا جا رہا ہے یہ بات تشویشناک ہے، عوام اور اسٹیبلشمنٹ کا ورد کیوں کیا جا رہا ہے، اب ماضی نہیں دہرایا جانا، نیا سورج طلوع ہو گا، جمہوریت ہی راج کرے گی، اور اس کی حفاظت عوام کریں گے، شاید یہی وہ خوف ہے جو اس ملک کو مفادات کی سیاست کا راجواڑہ بنانے والوں کو لاحق ہے، جب کسی معاشرے میں نیکی کو اچھائی کو برائی کے لئے استعمال کیا جانے لگے تو سمجھ لیں کہ وہاں عوام سے مخلص حکمرانی کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا، اب کوئی معجزہ ضرور ہو گا اور معجزہ عقل کو عاجز کر دیتا ہے یہی اس کا لغوی مفہوم ہے، آخر یہ آوازیں بازار سیاست سے پے در پے کیوں اٹھ رہی ہیں کہ ہمیں ایک ٹیبل پر اسٹیبلشمنٹ لائی، نون لیگ کہہ رہی ہے غیر جمہوری جوڑ توڑ نہیں چلے گا، پیپلز پارٹی لگ بھگ یہی بات ان الفاظ میں کہہ رہی ہے اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت بند کرے، یہ کوئی پاک فوج کے خلاف بیرونی اندرونی سازش تو نہیں؟ ہم سمجھتے ہیں یہ کرو بند ہونی چاہئے اور اہل سیاست کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ ہنوز سیاست میں بلوغت کو نہیں پہنچے، 2018کے انتخابات زیادہ دور نہیں پاکستانی قوم اپنا بالغ نظر فیصلہ صادر کرے، اب یہاں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں، اپنی سیاسی نااہلیاں کسی ادارے کے کھاتے میں نہ ڈالی جائیں، اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے، کیونکہ ہمارے دشمن ہم سے نہیں ہمارے مضبوط اداروں سے خائف ہیں۔
٭٭٭٭
کیا پی ٹی آئی سب درست کر دے گی؟
عمران خان نے کہا ہے:اقتدار میں آ کر نواز، شہباز، زرداری کو جیل میں ڈالیں گے، یہ بیانیہ کیا اقتدار پرستانہ نہیں؟ کیا پی ٹی آئی کا آزمانا خیبر پختونخوا حکومت کے باوجود باقی ہے؟ کیا پی ٹی آئی میں جن افراد کے ٹھٹھ لگ رہے ہیں وہ ٹیم میچ جیت سکے گی کیا پی ٹی آئی اتنا بڑا بریک تھرو کرے گی کہ خان صاحب کے وزیراعظم بننے میں کوئی شک نہ رہے؟ ہم اگرچہ بحیثیت قوم کوئی اچھی قیادت نہیں لا سکے، اور نہ ہی پیدا کر سکے، اپنے ووٹوں سے کوئی ایسی قیادت لے آئیں گے جو اس ملک پر مسلط ستر سالہ آسیب سے چھٹکارا دلا دے؟ ابھی سے خوش فہمیوں کے مینار کھڑے نہ کئے جائیں آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، کسی کے مظلومیت ڈرامے سے آنکھیں بھیگ گئیں تو ساری نوٹنکیاں الیکشن آفس پر ہٹ ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا، بہتر تو تھا کہ ملک میں دو بڑی جماعتیں ہوتیں، مگر ہم شاید ہنوز سیاسی ناپختگی سے نکلے نہیں ایک سیاسی انتشار میں سے عمدہ سیاسی قیادت کے چنائو کا معاملہ تو خود ووٹر کو بھی کنفیوز کر دے گا، پاکستان تحریک انصاف تاحال اسم با مسمیٰ نہیں اس لئے توقعات کی ٹرین چلانا پھر کسی ڈٹھے کھوہ پر بریکیں مارنے کا سبب بن سکتا ہے، ابھی صرف دیکھنے جانچنے پرکھنے اور سوچنے پر زور دینے کا وقت ہے، سسٹم جب ٹھیک نہ ہو تو سانچوں سے مسخ شدہ پراڈکٹس ہی نکلتی ہیں، کم از کم عوامی سطح پر ہر فرد کو بھی ضمیر کے کٹہرے میں خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کی ضرورت ہے، کون ایسا ہے جسے ہم لے آئیں اور وہ کم از کم ہمارے نظام ہی کو صراط مستقیم پر لے آئے؟ ہمیں تو تاحال ایسا کوئی نظر نہیں آیا کسی نے دیکھ لیا ہو تو مطلع کر دے، سوئی گھوم رہی ہے کہیں ٹکتی نہیں اٹکتی ضرور ہے، ہمارا خیال ہے کہ کم مضر صحت پر ہی فیصلہ دینا ہو گا، لیکن ابھی تک معاملہ برابر برابر ہے۔

تازہ ترین