عمران خان صاحب کا یہ کمال لازوال ہے کہ ان کی عمرجتنی بھی بڑھے ان کے کارکن انہیں نوجوان ہی سمجھتے ہیں بقول شاعر،سینچتا ہوں غم جاناں کو جگرکے خوں سے،،، عمرڈھلتی ہے تویہ اورجواں ہوتا ہے۔کے مصداق جتنا جیسے جیسےان کی عمرگزررہی ہے ان کے کارکنوں کا یہ یقین پکا ہوتا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے کم عمر پارٹی سربراہ ہیں، حالانکہ وہ میاں نواز شریف، آصف زرداری اورسراج الحق سے تو عمرمیں بڑے ہی ہونگے۔ ایک توان کی عمر اوردوسری انصاف کے حوالے سے ان سے وابستہ توقعات کبھی بھی ماند نہیں پڑتیں۔ ان دونوںکے علاوہ پورے ملک میں ان کے حامی یہ بھی سننے کو تیارنہیں کہ ان کے خوابوں کی جنت خیبرپختونخوا میں کہیں انصاف کی کوئی کمی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ توتوقعات اورامیدوں کی وہ صورتحال ہے جواس صوبے اورپارٹی چیئرمین عمران خان سے وابستہ رکھی گئی ہیں،لیکن اگر تحریک انصاف کے کارکنوں کو برا نہ لگے توان سب کی توجہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 27اکتوبرکوپیش آنے والے ایک شرمناک واقعے کی جانب دلائوں۔وہ شرمناک واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے موضع چودھوان میں پیش آیا جہاں نوجوان لڑکی کوسرعام برہنہ کرکے گلیوں میں رسوا کرنے والے مسلح لوگوںنے نہ صرف ریاست کی رٹ بلکہ عمران خان صاحب، ان کی مثالی پولیس اورعلاقے سے منتخب ان کے ہرکارکن کوچیلنج کیا۔ ایف آئی آرمیں نامزد زیادہ تر ملزموں نے عدالت میں اعترف جرم بھی کرلیا ہے۔ اس سارے عرصے میں جو چیز سب سے زیادہ متاثرہوئی وہ ہے صوبے کی مثالی پولیس کا جھوٹا بھرم، جس کی مثالیں دیتے دیتے نہ عمران خان صاحب تھکتے ہیں اورنہ ہی وزیراعلی۔ پولیس خود بھی چند مصنوعی نوعیت کے اٹھائے گئے اقدامات کے پیچھے چھپ کرازخود ہی فرض کئے بیٹھی ہے کہ وہ بدل گئی ہے لیکن وہ درحقیقت کتنی بدلی ہے اس کا اندازہ اس جرم عظیم کے فورا بعد پولیس کی جانب سےلکھی گئی ایف آئی آرنمبر209 سے ہوتا ہے جس کے الفاظ بھی اسی دور کے لگ رہے ہیں جب پولیس کا نام ذہن میں آتے ہی خوف آتاتھا۔ ظالم کو بچاتے ہوئے پولیس کا نہ صرف اندازاعانت وہی ہے بلکہ الفاظ بھی وہی ہیں۔ اس جعلی ایف آئی آر کو بعد میں خفت مٹانے کے لئے حکومت کے ایما پرختم کردیا گیا۔ پولیس کا طریقہ واردات اس کیس میں بھی وہی رہا جوہمیشہ سے اس کا خاصہ تھا۔ بات سچ بھی ہے اوررسوائی کی بھی ہے ، اب کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ایسے علاقے میں جہاں پرہرطرف اورہرسطح پرانصاف کے نشان عمران خان صاحب کی جماعت کا پورا اختیار ہے وہیں ایک نوجوان لڑکی کو پرانی دشمنی کی وجہ سے گلیوں میں مسلح مجرموں نے جس طرح گھمایا سب کے علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگرپولیس مثالی ہے اوربدل چکی ہے تو صوبائی حکومت کو خود مداخلت کرکے اس مثالی پولیس کی سب سے پہلے درج کی گئی ایف آئی آرنمبر209کیوں واپس لینی پڑی اورحکومت کی مداخلت پرحقیقی متاثرہ لڑکی کی ایف آئی آرنمبر210کیوں درج کی گئی؟ عمران خان صاحب جو انصاف کا بول بالا ہونے کے داعی ہیں اورکہتے ہیں کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں لوگوں کی کیا زندگی ہوگی۔ اب اپنے مضبوط گڑھ میں اس جرم عظیم کے ہونے کے بعد وہ ان چند حقائق سے کیسے جان چھڑائیں گے کہ یہ جرم جس علاقے میں ہوا وہاں ان کی صوبائی حکومت ہے، وہاں کا ضلعی ناظم ان کا ہے یہاں سے منتخب ایم این اے ان کی جماعت کا ہے، ایم پی اے بھی ان کا بندہ ہے، گلی اورمحلے میں منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے بھی ان کے ہیں اس کے بعد ان کا ہاتھ کس نے روکا ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں زیادتی کا شکار شریفاں بی بی کو انصاف دے سکیں۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگرعمران خان صاحب اسے ٹسٹ کیس بناکرواقعے میں ملوث لوگوں، جرم کے مرتکب پولیس اہلکاروں اورمجرموں کو بچانے والے پارٹی رہنماوں کے خلاف کوئی مثالی اقدام کرگئے جس سے مظلوم کو انصاف مل سکے توپھرپورے پاکستان میں انہیں کوئی بھی حکومت بنانے سے نہیں روک سکتا۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ اس مضبوط گڑھ میں رہنے والے ان کے تین اہم ترین لوگ ایک ہی کیس پرالگ الگ موقف کیوں رکھتے ہیں؟ ضلعی ناظم کیس سے لاتعلق کیوں ہے؟ پولیس تحریک انصاف کے منشورکے مطابق انصاف کرنے کی بجائے مجرموں کی پشت پناہی کیوں کررہی ہے ؟وزیراعلی اورآئی جی کیوں کیس میں مداخلت پرمجبورہوئے؟پارٹی چیئرمین عمران خان صاحب کے پاس ایک نادرموقع ہے کہ وہ اس مظلوم لڑکی کے سرپرہاتھ رکھ کرپارٹی کے اندراقرباپروری کے بتوں کو توڑدیں اورایک واضح پیغام دیں کہ مجرم چاہے جو بھی ہواوراسے بچانے کی کوشش کرنے والاچاہے ان کے قریب ہو یانہیں وہ ان کے قہر سے نہیں بچ سکتا۔ عمران خان صاحب کو اپنے پروگرام اورمنشورکو نافذ کرنے کے لئے اس سے بہترموقع شاید ہی دوبارہ ہاتھ آئے کیونکہ اس علاقے میں لوگ بھی ان کے اپنے ہیں اوراختیار بھی ان کے پاس ہے۔ لیکن وہ اگراس کیس سے نظریں چراتے ہیں تو پھرشاید لوگ ان کے نعروں اوروعدوں کو وہ اہمیت نہ دیں جوانصاف کے داعی کے طورپران کی پہچان ہے۔ ایسے میں عمران خان صاحب سے انصاف کی توقع کرنے والوں کا حق ہے کہ انہیں مایوس نہ کیاجائے۔ اورویسے بھی توروزمحشر شریفاں کوکسی نہ کسی کا گریباں پکڑکرخدا سے اپنے حصے کا انصاف مانگنا ہی ہے وہاں پرکون جواب دے گا، عمران خان، ان کے وزیراعلی پرویزخٹک، آئی جی پولیس یا علاقے سے منتخب ان کے لوگ۔