حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) ڈی آئی جی حیدرآباد جاوید عالم اوڈھو نے کہا ہے کہ دہشت گردی مختلف محاذوں سے ہورہی ہے‘ 12 ربیع الاول کے حوالے سے اور درگاہوں و مذہبی مقامات پر ممکنہ دہشت گردی کے خدشات موجود ہیں تاہم خوامخواہ ہیجان‘ بے چینی اور پریشانی کا ماحول پید اکرنا نہیں چاہتے‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری طرح سے چوکس ہیں‘ حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر نوشاد کی ٹارگٹ کلنگ کے مرکزی ملزم شاہد ڈانسر کو حیدرآباد پولیس نے جمعہ کو پولیس مقابلے کے بعد آلہ قتل پستول اور موٹر سائیکل سمیت گرفتار کرلیا ہے‘ کامیاب کارروائی پر حیدرآباد پولیس کی تعریف‘ نقد انعام اور تعریفی اسناد دینے کی سفارش کردی۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو ڈی آئی جی آفس میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی حیدرآباد جاوید عالم اوڈھو نے کہا کہ 25 اکتوبر کو موٹر سائیکل سوار دو ملزمان کی فائرنگ سے شہر کے نامی گرامی ڈاکٹر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر نوشاد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد شہر میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوگئی تھی‘ ٹارگٹ کلنگ کے اس واقعہ پر فوری طور پر ایس ایس پی حیدرآباد پیر محمد شاہ‘ ڈی ایس پی سی آئی اے اسلم لانگاہ‘ ڈی ایس پی حالی روڈ مہتاب بٹ اور ایس ایچ او حالی روڈ ذیشان لاشاری پر مشتمل ٹیم قائم کی تھی جس نے انتہائی جانفشانی سے تفتیش اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد خفیہ اطلاع پر جمعہ کو لال ٹنکی امریکن کوارٹر کے علاقے میں چھاپہ مارکر مرکزی ملزم شاہد ڈانسر کو گھیرے میں لے لیا جس پر شاہد ڈانسر اور اس کے ساتھی نے پولیس پر فائرنگ شرو ع کردی‘ گولیاں ختم ہونے پر ملزم کا ساتھی قتل کی واردات کا دوسرا ملزم کامران عرف کریلا عرف پپو فرار ہوگیا جبکہ ملزم شاہد ڈانسر نے گرفتاری دیدی۔ پولیس نے ملزم کے قبضے سے ڈاکٹر نوشاد کے قتل میں استعمال ہونے والا آلہ قتل پستول اور واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی برآمد کرلی ہے جبکہ فرار ہونے والے ملزم کامران عرف کریلا کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارنے شروع کردیئے ہیں۔ پولیس کے مطابق شاہد ڈانسر بھی ایم کیو ایم گجراتی پاڑہ کا یونٹ ممبر رہ چکا ہے‘ اس کے علاوہ اس نے 2004 ءمین ایم کیو ایم کے رہنما سلیم انقلابی کو‘ 2014 ءمیں پیار علی سموں اور جہانگیر پرھیاڑ کو قتل کیا‘ اس کے علاوہ حیدرآباد اور دیگر اضلاع کے تھانوں میں شاہد ڈانسر کے خلاف ڈکیتی‘ رہزنی‘ پولیس مقابلے‘ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزامات میں 15 مقدمات درج ہیں۔ پریس کانفرنس میں ایس ایس پی پیر محمد شاہ‘ ڈی ایس پی حالی روڈ مہتاب بٹ‘ ایس ایچ او حالی روڈ ذیشان لاشاری و دیگر افسران بھی موجود تھے۔ اس موقع پر سوالات کے جواب میں انہوں نے دہشت گردی کے خدشات کے حوالے سے کہا کہ درگاہ سیہون شریف اور بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے باعث حیدرآباد اور سندھ بھر میں مزارات پر دہشت گردی کے خدشات بڑھ گئے ہیں‘ پولیس سیکورٹی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اور احتیاط کررہی ہے‘ اسی لئے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے عرس کے موقع پر بہت زیادہ سیکورٹی اقدامات کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کی زیر صدارت ہونے والے ریجن کے ایس ایس پیز کے اجلاس میں بھی بڑے بڑے مزارات کی سیکورٹی پر غور کرکے اس میں اضافے کا حکم دیا گیا ہے اور مزید مزارات کو اے کیٹگری میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جشن عید میلاد النبیﷺ (12 ربیع الاول) کے حوالے سے دہشت گردی کے ممکنہ خدشات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ بہت حساس ہے‘ اس موقع پر بڑے جلوس نکالے جاتے اور بڑی تقریبات ہوتی ہیں‘ خدشات موجود ہیں تاہم خوامخواہ ہیجان‘ بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا کرنا نہیں چاہتے‘ پولیس بھرپور سیکورٹی اقدامات کررہی ہے اور پوری طرح چوکس ہے۔ ایک سوال پر کہ سیکورٹی خدشات کس نوعیت کے ہیں‘ ڈی آئی جی حیدرآباد نے کہا کہ مختلف محاذوں‘ ملک دشمن قوتوں‘ کالعدم تنظیموں سمیت دیگر سے خدشات ہیں‘ تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حیدرآباد میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے بیشتر کیسز حل کیے جاچکے ہیں‘ دہشت گردی کا فوری کوئی خطرہ نہیں تاہم ملک بھر میں درپیش دہشت گردی کے خدشات کے حوالے سے حیدرآباد کو بھی یہی خدشات ہیں۔ دہشت گردی کے کیسز سی ٹی ڈی کے حوالے کرنے کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے سی ٹی ڈی خاصی صلاحیت رکھتی ہے‘ اسی لئے یہ کیسز انہیں منتقل کیے جاتے ہیں‘ کیسز کی منتقلی پولیس کی نااہلی کا معاملہ نہیں ہے‘ جیلوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے سندھ حکومت نے بہت کام کیا ہے‘ جیل کی چار دیواری مضبوط کرکے جیمرز نصب کیے ہیں‘ سیکورٹی میں اضافہ کیا ہے جس سے جیل کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ سی سی ٹی وی کی بہت زیادہ ضرورت ہے‘ اس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ مہران یونیورسٹی سے بموں کی برآمدگی اور عاشورہ کے دوران پنیاری سے بم کی برآمدگی کے حوالے سے سوال پر کہا کہ یہ کارروائیاں محض خوف ہراس پیدا کرنے کے لئے کی گئی تھیں تاہم اس کی انکوائری جاری ہے‘ اندرون سندھ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے‘ روکا نہیں گیا‘ مین پوری و گٹکے کے خلاف کامیاب آپریشن کے باوجود حیدرآباد میں بعض پولیس افسران و اہلکاروں کی سرپرستی میں فروخت کے حوالے سے سوال پر کہا کہ اس سلسلے میں کارروائیاں جاری ہیں‘ شکایات پر کارروائیاں کی جائیں گی۔