• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق بچے گا تو سیاست ہوگی، 14 دن سے ریاست بے بس، جو کچھ دیکھ رہا ہوں اچھا نہیں، چیئرمین سینیٹ

Todays Print

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہےکہ وفاق بچے گا تو سیاست ہوگی،14 دن سے ریاست بے بس، جو کچھ دیکھ رہا ہوںاچھا نہیں ہے، وار لارڈ ازم معاشرے کو کنٹرول کرے گا تو آپ کی سیاست ہوگی نہ میری، عوام کو اسے روکنا ہے، تمام ادارے آئینی حدود میں رہیں،14 دنوں سے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔تفصیلات کے مطابق سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے حامد میر، احمد نورانی اور مطیع اللہ جان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ادارے کمزور اورسیاست افراتفری کا شکار ہو۔

وہاں صحافیوں کا کردار مزید ابھر کر سامنے آتا ہے۔ پیر کو نیشنل پریس کلب میں یادگار شہدائے صحافت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اس وقت قائم ہوگی جب اشرافیہ سے لے کر تانگے والے تک قانون کا اطلاق ایک طرح کیا جائے گا۔پچھلے 14دنوں سے ریاست بے بس بے حسی کا شکار کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

اگر وفاق بچے گا تو ہی سیاست ہوگی وار لارڈازم معاشرے کو کنٹرول کرے گا تو نہ آپ کی سیاست ہوگی نہ میری سیاست ہوگی، وار لارڈ ازم مختلف شکلوں میں ریاست پر حاوی ہونے کی کوشش کررہا ہے عوام کو اسے روکنا ہے،میں جو دیکھ رہا ہوں وہ کچھ اچھا نہیں اس کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔ وار لارڈ ازم کو برداشت نہیں کریں گے۔یاد گار کے افتتاح کے بعد باقاعدہ تقریب کے دوران نیشنل پریس کلب کی طرف سے صحافت کے شعبہ میں در پیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے جیو کے سینئر اینکر پرسن حامد میر اورپاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور راولپنڈ ی پریس کلب کے سابق صدر سید سعود ساحر کو پرائیڈ آف جرنلزم ایوارڈ دیئے گئے جن میں ایک لاکھ روپے نقد بھی شامل تھے۔ حامد میر نے ایک لاکھ روپے نقد وصول کرنے سے انکار کردیا اور پریس کلب کے ذمہ داران سے یہ رقم صحافیوں کی ویلفیئر پر خرچ کرنے کی درخواست کی۔ صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم نے صحافیوں کی شہادت پر روشنی ڈالی۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ جس محبت اور عزت سے مجھے مدعو کیا جاتا ہے اس پر میں پریس کلب کا شکر گزار ہوں۔یہ شہید صحافیوں کی پہلی یاد گار نہیں ہے اس سے پہلے پارلیمنٹ ہائوس میں بھی شہداء کی یاد گار بنائی گئی ہے جس میں ایک جگہ صحافتی دوستوں کے لئے ہے۔

یاد گاروں کا یہ سلسلہ مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے پہلے صرف اور صرف ان شہداء کی یادگاریں ہوتی تھیں جنہوں نے سرحد پر ملکی دفاع میں اپنی جانیں پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ قومیں بنتی ہی اس وقت ہیں جب ہم اپنے ہیروز کو یاد کریں، ان کی عزت کریں۔ پاکستان کی ریاست میں ان تمام لوگوں کو ریاست کا حصہ نہیں سمجھا۔ احمد نورانی جیسے دوست نہ ہوتے تو شاید ریاست بکھر چکی ہوتی ان کی جدوجہد نے ہی معاشرے کو اکٹھا رکھا ہوا ہے۔ احمد نورانی کی طرح ڈنڈے کھانا اور حامد میر کی طرح گولیوں کا سامنا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ جہاں پر ادارے کمزور ہوں اور سیاست افراتفری کا شکار ہو وہاں صحافیوں کا کردار مزید ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 14روز سے ریاست بے بس ہوئی ہے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔اگر وفاق بچے گا تو ہی سیاست ہوگی۔ معاشرہ صحیح سمت میں چلے گا تو ہی ہماری سیاست ہوگی۔

وار لارڈازم کو روکنے کا راستہ ایک ہی ہے کہ عوام، سیاسی کارکن، صحافی، دانشور، مزدور، کسان اور ادارے ایک پیج پر آجائیں اور اس بات کو طے کریں۔وار لارڈ ازم کو برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان یہ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان کے مظلوم لوگوں کی آواز ہے۔ میں نے کہا تھا کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل لے آئیں ورنہ پارلیمان اپنا کام خود کریگی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات نے اس بل کے مسودے کو دیکھا اور مزید بہتر بنانے کے لئے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی بہت سی شقیں موجود ہیں کیا ان پر عملدرآمد ہورہا ہے؟ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کو نافذ کرنے کے چار معیار ہیں۔پہلا معیار آپ کا تعلق اشرافیہ سے ہے تو قانون کا اطلاق اس طرح ہوگا‘ دوسرا معیار اشرافیہ کے سہولت کار ہیں تو اس طرح قانون کا اطلاق ہوگا‘ تیسرا معیار اگر آپ دولت مند ہیں تو اس کے مطابق اطلاق ہوگا اور چوتھا ایک عام شہری کے لئے قانون کا اطلاق اس طرح ہوگا۔

قانون کی حکمرانی اس وقت قائم ہوگی جب اشرافیہ سے لے کر تانگے والے تک قانون کا اطلاق ایک طرح کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام سیاسی کارکن کی حیثیت سے وعدہ ضرور کرسکتا ہوں کہ اس جدوجہد میں پاکستان کو ہم حقیقی طور پر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ 

تازہ ترین