کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ آپریشن انتظامیہ نے ہائیکورٹ کے حکم پر کیا،میں مذاکرات چاہتا تھا،ہلاکتوں کے واقعات راولپنڈی کی حدود میں ہوئے جہاں لوگوں نے چوہدری نثارکے گھر پر حملہ کیا،پنڈی میں میرانہیں ،وزیرداخلہ پنجاب کا اثرچلتا ہے۔اگرآپریشن میری ذمہ داری ہو اوراپنی منشا سے کروں تو تین چارگھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“میں میزبان سلیم صافی سےگفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے پرو گر ا م میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی نے ابھی رپور ٹ تیار نہیں کی ہے،اسی کی روشنی میں راجہ ظفر الحق کی کمیٹی بنائی گئی، انصاف کا تقاضہ ہے کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کو کام پورا کرنے دیا جائے، راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ ابھی فائنل نہیں ہوئی ہے، کیونکہ میں بھی اس کمیٹی کا رکن ہوں میں نے کوئی ابھی ایسا مسودہ دستخط نہیں کیا ممبر آف دی کمیٹی مجھے بھی کرنا چاہیے لیکن ان کا ابھی کوئی جو حتمی مسودہ ہم تک نہیں پہنچا ،تحقیقات میں کسی کی بددیانتی اور جرم ثابت ہوتو اس کیخلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہئے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ کچھ لوگوں کے ہنگامے کی وجہ سے انصاف نہ کیا جائے، تحقیقات حتمی نتائج پر پہنچے بغیر کسی شخص کو عقیدےکامجرم نہیں بنایا جاسکتا،متنازع قانون وزارت قانون کا نہیں پارلیمانی کمیٹی کا بنایا ہوا تھا جس میں تمام جماعتیں شامل تھیں ، حکومت نے یہ قانون بنایا ہوتا تو ہم سب استعفیٰ دید یتے ،تدبر اور سنجیدگی کے ساتھ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کررہے ہیں،کچھ سیاسی عناصر اپنے سیاسی عزائم کیلئے اس معاملہ کو ہوادیناچاہتے ہیں،دھرنے والوں کیخلاف آپریشن میرے حکم پر نہیں ہوا،اسلام آباد انتظامیہ ہائیکورٹ کے احکامات پر براہ راست آپریشن کررہی تھی، آپریشن روکنا بھی انتظامیہ کا فیصلہ تھا، آپریشن میری ذمہ داری ہو اور اپنی منشاء سے کروں تو تین چار گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے۔
اس وقت آپریشن کرنا میری منشاء نہیں تھی، میں آپریشن موخر کرنا اور مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل کرنا چاہتا تھا،کل عدالت میں اپنے تحفظات بیان کروں گا، تحقیقات میں کسی کی بدد یا نتی ثابت ہوتو اس کیخلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہئے ،چند ہزار لوگوں کے دھرنے پر استعفوں کی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے،ایسا ہوا تو کل کوئی اور پھر اپنا مطالبہ لے کر دھرنا دینے آجائے گا، پیمرا آرڈیننس کے تحت کسی سیکیورٹی آپریشن کی لائیو کوریج نہیں ہوسکتی ہے،چند چینلز نے آپریشن کی کوریج میں غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ میزبان سلیم صافی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ربیع الاول کے مہینے میں جانوں کے نقصان پر رنجیدہ اور غمگین ہیں،اس مہینے میں سب کو اتحاد و اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ضرورت تھی، جن محلوں اور گلیوں میں میلاد کی تقریبات ہونی چاہئے تھیں وہاں دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ ہورہا ہے،مسلمان ہی مسلمانوں کے گھروں پر حملے کرر ہے ہیں۔ احسن اقبال نے بتایا کہ مظاہرین لاہور سے نکلے تو حکومت پنجاب مکمل رابطے میں تھی، مظاہرین کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر انڈراسٹینڈنگ تھی کہ یہ اسلام آباد آئیں گے اور دعا کے بعد احتجاج ختم کردیں گے، مظا ہر ین کی مذاکراتی کمیٹی کی وزیرقانون پنجاب سے میٹنگ میں تمام تفاصیل طے کی گئیں، دھرنا مظاہرین اسلام آباد پہنچے تو ان ایام میں چہلم کے جلوس بھی ملک میں نکل رہے تھے، معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر انتظامیہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے کشیدگی پیدا ہوتی، مظاہرین دھرنے پر بیٹھے تو ان سے مذاکرات کے کئی دورہوئے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے نمائندہ بزرگان سے بھی بات چیت ہوئی، پیر حسین الدین کی قیادت میں مشائخ کرام کا وفد آیا، جنہوں نے کہا کہ دھرنے والوں کے ساتھ زاہد حامد کی ملاقا ت کروادی جائے، زاہد حامد ان کے سامنے اپنا موقف پیش کریں اور صفائی دیدیں کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں ان کا کیا کردار تھا تو یہ شرعی طور پر قابل قبول حل ہے۔ احسن اقبال نے مزید بتایا کہ دھرنے والوں کی مذاکراتی کمیٹی سے زاہد حامد کی نشست کروائی گئی، زاہد حامد نے ملاقات میں واضح کیا کہ میں سنی العقیدہ مسلمان ہوں، میرے بزرگوں کی قبریں میاں میر صاحب کے احاطے میں ہیں، اگر میں کسی اور مذہب سے ہوتا تو ہمیں یہ جگہ نہ ملتی، زاہد حامد نے اہم بات بتائی کہ جس قانون سے متعلق تنازع پیدا ہوا یہ وزارت قانون کی نہیں پارلیمانی کمیٹی کا بنایا ہوا تھا جس میں تمام جماعتوں کے بائیس ارکان شامل تھے، جب پارلیمانی کمیٹی قانون کا کوئی مسودہ تیار کرتی ہے تو بحیثیت وزیرقانون میری ذمہ داری مڈل مین کی ہے جسے وہ مسودہ اسمبلی میں پیش کرنا ہوتا ہے اور میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا، زاہد حامد نے انہیں بتایا کہ کمیٹی کی رپورٹ کو ہم نے اسمبلی میں پیش کیا، ہر رکن اسمبلی کو دی، میڈیا کو ریلیز کی اور ویب سائٹ پر رکھی مگر اس حوالے سے کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا، جب یہ رپورٹ سینیٹ میں پیش ہوئی تو جے یو آئی ف کے حمد اللہ صاحب نے اعتراض کیا۔ وزیرداخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی نے ابھی رپورٹ تیار نہیں کی ہے، ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد حتمی رپورٹ کمیٹی کو دیدیں، اس معاملہ کا تعلق عقیدے اور ایمان سے ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے فائنڈنگز دوسو فیصد یقین کے ساتھ کی جائیں کہ اس میں کس کا قصور ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کچھ لوگوں کی ہنگامے کی وجہ سے انصاف نہ کیا جائے، تحقیقات حتمی نتائج پر پہنچے بغیر کسی شخص کو عقیدے کا مجرم نہیں بنایا جاسکتا۔ احسن اقبال نے کہا کہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت کو فیصلہ کرتے ہوئے ہر رخ کو سامنے رکھنا ہوتا ہے،میں دھرنے کیخلاف آپریشن میں تاخیر کررہا تھا ، میری کوشش تھی کہ پرامن طریقے سے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ وفاقی وزیر داخلہ کاکہنا تھا کہ چھ جانوں کی قربانی کسی کا مقصد نہیں تھی، یہ لوگ دھرنے کیخلاف آپریشن میں نہیں مرے، مجمع نے چوہدری نثار کے گھر پر حملہ کیا اور وہاں آگ لگائی، اس دوران وہاں جو حفاظتی گارڈز تھے یا ابھی ہم یہ تحقیق مکمل نہیں کرسکتے کہ کہاں سے کس نے فائرنگ کی لیکن اس واقعہ میں یہ لوگ ہلاک ہوئے، یہ لوگ آپریشن میں نہیں مرے بلکہ فیض آباد کی طرف ایک گروہ تھا جس نے چوہدری نثار کے گھر کی طرف حملہ کیا۔
یہ حادثہ بدقسمتی سے اس کارروائی میں ہوا،پنجاب حکومت نے اس واقعہ کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے، انتظامیہ کی سخت ہدایات تھیں کہ کسی پولیس اہلکار کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں ہوگا، اسی لئے اتنے گھنٹوں پر محیط آپریشن کے دوران کوئی انسانی جان نہیں گئی۔احسن اقبال نے کہا کہ کل عدالت میں اپنے تحفظات بیان کروں گا، عدالت کو پچھلی پیشی میں آگاہ کیا تھا کہ دھرنے میں مسلح لوگ بھی ہیں اس لئے ہمیں خطرہ ہے آپریشن احتیاط سے نہ کیا تو ناکام بھی ہوسکتا ہے، اگلی پیشی پر عدالت نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرداخلہ ہمارے احکامات کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے، انتظا میہ فوری طور پر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرے۔ احسن اقبال نے بتایا کہ کل کا آپریشن میرے حکم پر نہیں ہوا، کل کا آپریشن اسلام آباد انتظامیہ اسلام آباد ہائیکو ر ٹ کے احکامات کی روشنی میں براہ راست کررہی تھی جبکہ آپریشن روکنا بھی انتظامیہ کا فیصلہ تھا، مجھے شوکاز نوٹس دیا کہ میں نے آپریشن کیوں روکا، آرٹیکل 190کے تحت عدالت کسی بھی ادارے کو حکم دیتی ہے تو وہ عدالتی حکم کی بجاآوی کا پابند ہوتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آپریشن شروع ہوا تو میڈیا چینلز نے لائیو کوریج شروع کردی جس سے بے چینی پیدا ہوئی، راولپنڈی سے کافی مجمع آیا تو احتمال ہوا کہ سیکیورٹی فورسز سینڈوچ نہ ہوجائیں اس لئے انہیں وہاں سے ہٹنا پڑا۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ دھرنے والوں کو سمجھایا تھا کہ پاکستان مخصوص خطروں سے دوچار ہے، ہمیں آگ و خون کا کھیل نہیں کھیلنا چاہئے، آپ ہم پر اعتماد کریں، ہم بھی اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے آپ ہیں، ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے آپ سے،اپنی اولاد او ر ماں باپ سے زیادہ عشق او ر محبت کرتے ہیں،جس کے خلاف ثبوت نہیں ایک گروہ ان کا استعفیٰ مانگ رہا ہے۔وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ پرویز رشید اور مشاہد اللہ پر الزامات کا تعلق ان کے عقیدے اور ایمان کے ساتھ نہیں تھا،اگر ان پر الزامات کا تعلق بھی ان کے عقیدے اور ایمان کے ساتھ ہوتا تو اتنی ہی احتیاط لازم تھی جتنی ختم نبوت والے معاملہ میں کی جارہی ہے، شہباز شریف نے صرف اتنا مطالبہ کیا کہ اس معاملہ میں اگر کوئی گناہ گار ہے تو اسے تحقیقات کر کے نکال دیں،اسی کی روشنی میں راجہ ظفر الحق کی کمیٹی بنائی گئی،انصاف کا تقاضہ ہے کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کو کام پورا کرنے دیا جائے،راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ ابھی فائنل نہیں ہوئی ہے، تحقیقا ت میں کسی کی بددیانتی اور جرم ثابت ہوتو اس کیخلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہئے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ چند ہزار لوگوں کے دھرنے پر استعفوں کی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے، ایسا ہوا تو کل کوئی اور پھر اپنا مطالبہ لے کر دھرنا دینے آجائے گا، پاکستان میں بمشکل فرقہ واریت ختم کی،اس آگ کو دوبارہ جلایا گیا تو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی، ملک میں اختلافات اور نفرتیں کم کرنی ہیں۔
آج جو مناظر دیکھے ان سے بحیثیت پاکستانی خوف آرہا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں، یہاں لوگوں کو دوسروں کے گھروں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، ہم تدبر اور سنجیدگی کے ساتھ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کررہے ہیں، بدقسمتی سے کچھ سیاسی عناصر اپنے سیاسی عزائم کیلئے اس معاملہ کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ یہ قانون وزارت قانون کا نہیں پارلیمانی کمیٹی کا بنایا ہوا تھا جس میں تمام جماعتیں بشمول جماعت اسلامی شامل تھیں، حکومت نے یہ قانون بنایا ہوتا تو ہم سب استعفیٰ دیدیتے، ایک سینیٹر نے قانون پر شبہ کا اظہار کیا تو پارلیمنٹ نے اڑتالیس گھنٹوں میں اسے اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا، اگر ہمارا قصور ہوتا تو پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ہمیں نہ بخشتیں۔ٹی وی چینلز بند کرنے سے متعلق سوا ل پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پیمرا آرڈیننس کے تحت کسی سیکیورٹی آپریشن کی لائیو کوریج نہیں ہوسکتی ہے، میڈیا کو بھی سیکیورٹی آپریشن اور کرکٹ میچ میں فرق کرنا چاہئے، کرکٹ میچ کی طرح سیکیورٹی آپریشن کی لائیو کمنٹری کی جائے تو خطرات بڑھ سکتے ہیں، چند چینلز نے آپریشن کی کوریج میں غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا، اگر صرف انہی چینلز کو بند کرتے تو انتقامی کارروائی کا تاثر پیدا ہوتا، چینلز کے ساتھ ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہوتے ہی چینلز کھول دیئے گئے، حکومت کی کچھ کامیابیاں اور کوتاہیاں بھی ہو گی، میڈیا اور حکومت کو اپنی کوتاہیوں کو ٹھیک کرنا ہوگا، پیمرا اور وزارت اطلاعات نے میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کیلئے کہالیکن تمام کوششیں ناکام ہوئیں، سوشل میڈیا پر کچھ جگہ بہت زیادہ تشدد اور اشتعال کی طرف براڈ کاسٹنگ ہورہی تھی، اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو کشیدگی بہت زیادہ بڑھنے کا خدشہ تھا۔چوہدری نثار کے بیان سے متعلق سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ چوہدری نثار میرے سینئر ہیں ان کا احترام کرتا ہوں ان کے بیان پر کچھ نہیں کہوں گا،سب جانتے ہیں پی ٹی آئی کے دھرنے کے وقت کون وزیرداخلہ تھا اور وہ دھرنا کتنے دن میں ختم ہوا تھا، چوہدری نثار کے بیان سے متعلق اگر مجھے تحفظات ہیں تو پارٹی میں بیان کروں گا۔سلیم صافی کے سوال چوہدری نثار دعویٰ کررہے ہیں میرے گھر کے باہر ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی اور آپ نے چھ ہلاکتیں ان کے گھر پر حملہ سے جوڑ دیں؟ کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا ، میں نے کہا وہاں پر جو واقعہ ہوا اس کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں، یہ بات اخبارات میں بھی رپورٹ ہوئی ہے کہ وہاں پر ایک حملہ ہوا اوراس کے نتیجے میں یہ معاملات ہوئے ، میں نے کہا کہ ہم ابھی نہیں کہہ سکتے کہ وہاں پر ہوئی یا کس طرح ہوئی، پنجاب حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے ٹیم نامزد کردی ہے۔
میں حکومت پنجاب کا نہیں وفاقی وزیرداخلہ ہوں، پنڈی کے واقعات پر میرا نہیں پنجاب کے وزیر داخلہ کا اثر چلتا ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ آپریشن میری ذمہ داری ہو اور اپنی منشاء سے کروں تو تین چار گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے، اس وقت آپریشن کرنا میری منشاء نہیں تھی، میں آپریشن موخر کرنا اور مسئلہ بات چیت کے ذریعہ حل کرنا چاہتا تھا، فیض آباد میں آدھا حصہ پنڈی اور آدھا اسلام آباد کا ہے، رینجرز دونوں طرف موجود ہے اس لئے ڈی جی رینجرز کو پنڈی ،اسلام آباد کی سیکیورٹی فورسز کی کمانڈ دی ہے تاکہ یونیفائیڈ کمانڈ ہو۔