• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومبر کا مہینہ ہو اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کا سفر ہو تو زندگی کا مزہ ہی دو بالاہو جا تا ہے ۔ کراچی کے شہری احمد معمور عمیمی نے بلوچستان کے ساحل استولہ کا ایسا ہی ایک سفر کیا ، جس کی داستان انہوں نے بڑے مزے سے ہمیں سنائی ، جو آپ بھی سنیے ۔

Pehchan-Pakistan_01_1

احمد معمور عمیمی کراچی کے ایک سیاح ہیں جو پاکستان کی خوب صورتی کو دیکھنے کے لیے مختلف جگہوں کا سفر کرتے رہتے ہیں ، وہ بتا تے ہیں کہ ہم کراچی سے استولہ کے سفر کے لیے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے ہم نے بلو چستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک کا رخ کیا، وہاں کے خوب صورت پہاڑ ہمارے لیے حیرت انگیز تھے ۔

انہوں نے بتا یا کہ ہنگول نیشنل پارک میں پہاڑی پر بنے قدرتی مجسمے کو دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، پہاڑ کے اوپر ایک خاتون کا مجسمہ بنا ہو ا ہے جو پرنسس آف ہو پ کہلا تا ہے ، پرنسس آف کانام اقوام متحدہ کی سفیر اور امریکی اداکارہ انجلینا جولی نے پاکستان کے دورہ پر اسے دیکھنے کے بعد رکھا تھا، وہ 2002 میں یہاں آئی تھیں۔

یہ پہاڑ امریکا کے خوب صورت پہاڑ ی گرینڈ کینین کی طرح حسین اور سنہرے پہاڑ ہیں ، جو کہ پاکستان کو قدرت کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہیں ۔انہوں نے بتا یا کہ اس کے بعد ہم لو گ پسنی پہنچے ،کراچی سے پسنی تک 9 گھنٹے کا سفر ہے ، جو کہ ملاحوں کی ایک چھوٹی سی بستی ہے۔

Pehchan-Pakistan_02_1

یہاں ہم نے رات بسر کی ۔ پسنی کی معیشت کادارومدار فشری پر ہے ۔ انہوں نے بتا یا کہ وہاں پر جو حیرت انگیز بات انہیں نظر آئی وہ یہ تھی کہ یہاں دستیاب تمام مصنوعات ایرانی تھیں ، دوکانوں پر مو جود ہر چھوٹی بڑی چیز ایرانی تھی ، حتی کہ پیٹرول اور چنگچی رکشے بھی ایرانی چل رہے تھے ۔

پسنی سے کشتی میں بیٹھ کر ہم استولہ کی طرف روانہ ہو ئے ، کشتی کا یہ سفر ہم نے 4 گھنٹے میں طے کیا ، مگر یہ سفر انتہائی مزے دار تھا ۔راستے میں ہمیں خوب صورت پہاڑ اور سنہری ریت کے ٹیلے ملے جو حسین منظر پیش کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتا یا کہ استو لہ سردیوں میں جانے کے لیے بہترین جگہ ہے ، کیونکہ سردیوں کے موسم میں سمندر بہت پرسکون ہو تا ہے۔

جب ہم کشتی میں سفر کر رہے تھے تو راستے میں متعدد مر تبہ ہمیں ڈولفن بھی نظر آئیں ، جو اچانک اوپر آکر تیزی کے ساتھ سمندر میں چلی جا تی تھیں ،جبکہ ہمارے سروں پر بحری بگلے بھی مسلسل پر واز کرتے نظر آرہے تھے ، یہاں پر لوگ مچھلیاں بھی پکڑتے دکھائی دیے۔

 پسنی کے ساحل پر پکڑی جا نے والی مچھلیاں خاصی مقبول ہو تی ہیں ، اور ان کا ذائقہ بھی بے حد لذیذ ہو تا ہے ۔ یہ مچھلیاں برآمد بھی کی جا تی ہیں ۔ انہوں نے بتا یا کہ وہاں پر ہم نے کیپٹن فش شکار کر کے کھا ئی ، جس کا ذائقہ مٹن کی طرح تھا ، یہ مچھلی مختلف رنگوں کی ہو تی ہے ۔ یہاں کا پانی بالکل صاف ستھرا اور دلکش ہے۔

نیلا اور گہرا پانی دیکھنے میں انتہا ئی حسین لگتا ہے ، اور پورے دن لہروں کا رنگ بھی بدلتا رہتا ہے ، جبکہ 15سے 20 فٹ تک سمندر کی تہہ بھی نظر آرہی ہو تی ہے ۔پچھلے سال اس ساحل کو سمندری تحفظ شدہ خطہ یعنی میرین پروٹیکٹیڈ ایریا قرار دیا گیا تھا ۔جو آبی حیات کے لیے ایک محفوظ مقام ہے ۔

Pehchan-Pakistan_03_1

یہاں پر سبز کچھوے بھی پا ئے جا تے ہیں ، جن کی افزائش نسل یہاں ہوتی ہے ، دنیا میں 12 جگہیں ایسی ہیں جہاں پر سبز کچھو وٗں کی افزائش ہو تی ہے ، ان میں سے پانچ جگہیں پاکستان میں ہیں ، سبز کچھوئوں کی خاص با ت یہ ہے کہ یہ جہاں پیدا ہو تے ہیں وہیں پر انڈے بھی دیتے ہیں ،ان کچھوؤں کی نسل انتہائی معدوم ہوتی جارہی ہے۔

انڈہ دینے کے 40 سے 45 دنوں کے بعد ان انڈوں سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اور بچے پیدا ہو تے ہی سمندر کی طرف بھا گتے ہیں ، ان میں سے صرف 20 فی صد ہی زندہ بچ پا تے ہیں ، باقی مچھلیاں وغیرہ کھا جا تی ہیں ۔

سبز کچھو ئوں کی عمر 100 سے 150 سوسال تک ہو تی ہے ۔یہاں پر ہم نے پا نی میں اسنارکلنگ بھی کی ، اور کیمپنگ کا سامان بھی اپنے ہمراہ لے کر گئے تھے ، جبکہ وہاں سے مختلف اقسام کی مچھلیاں بھی پکڑ کر کھائیں ۔

معمور عمیمی کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں دور دور تک کو ئی آبادی نہیں ہے ، اور نہ ہی ٹہرنے اور کھانے پینے کا کو ئی خاص انتظام ہے ، جبکہ روز شام کو مچھیرے یہاں آکر ٹہرتے اور تھوڑا آرام کر تے ہیں ، اور پھر صبح ہو تے ہی مچھلی کے شکار پر نکل جا تے ہیں ۔

اگر حکومت یہاں پر تھو ڑی سی توجہ دے تو اس سے سیاحت کو فروغ ملے گا ، اور ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر ے گی ۔

تازہ ترین